|
دمش پر قبضہ کرنے والے باغیوں نے نہ صرف ماسکو کے اتحادی بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹا ہے بلکہ شام میں روس کے فوجی اڈوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
شام میں قائم طرطوس کا بحری اڈا اور ’حمی میم‘ کا ہوائی اڈا، سابق سوویت یونین سے باہر روس کے واحد فوجی مراکز ہیں جو افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں کریملن کی سرگرمیوں میں کلیدی کردار کرتے رہے ہیں۔
روس کے سرکاری میڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دمشق پر قبضہ کرنے والے شام کے حزب اختلاف کے گروپ نے ملک میں موجود روس کی فوجی تنصیبات کی حفاظت کی ’ضمانت‘ دی ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ماسکو ان پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے گا۔
ہم شام میں روس کے فوجی مراکز پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
طرطوس کا بحری اڈا
شام کے ساحلی قصبے طرطوس میں قائم روس کا بحری اڈا، بحیرہ روم میں داخل ہونے کے لیے روس کا واحد راستہ ہے۔
روس اس بحری مرکز کو اپنے بحری جہازوں کو ایندھن کی فراہمی اور ان کی مرمت وغیرہ کے لیے استعمال کرتا ہے، جس کی وجہ سے روسی بحری جہاز آبنائے ترکیہ کے راستے بحیرہ اسود میں واقع اپنی بندرگاہوں کی طرف لوٹے بغیر بحیرہ روم میں قیام کر سکتے ہیں۔
شام نے 1971 میں ایک معاہدے کے تحت طرطوس کی سائٹ سوویت یونین کو لیز پر دی تھی۔ یہ فوجی بحری مرکز 1977 میں مکمل طور پر فعال ہو گیا تھا۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا جس دوران عرب ریاستوں نے سوویت یونین کے ساتھ بھرپور تعاون کیا تھا۔
طرطوس گہرے پانیوں کی ایک بندرگاہ ہے جس سے روس کو اپنی جوہری آبدوزیں اس علاقے میں رکھنے کی سہولت حاصل ہے۔
سن 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس کے بیرون ملک قائم بہت سے فوجی اڈے بند کر دیے گئے تھے، لیکن طرطوس کو برقرار رکھا گیا گیا تھا، اگرچہ وہاں روس کی فوجی موجودگی بہت کم تھی۔
شام کی خانہ جنگی کے دوران اس بندرگاہ پر روسی کی فوجی سرگرمیوں میں تیزی آئی اور جب باغی اسد کے خلاف زیادہ متحرک ہوئے تو روس نے اسد کا اقتدار بچانے کے لیے عملی طور پر حصہ لیا۔
سن 2015 میں روس نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں پر تباہ کن فضائی حملے کیے۔روس کے ایک اخبار کومرسنٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2015 تک طرطوس کی بندرگاہ پر روسی موجودگی برائے نام تھی جس کے بعد وہ بڑھ کر 1700 سے زیادہ ہو گئی تھی۔ تاہم اب یہ معلوم نہیں ہے کہ یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد اب وہاں کتنے روسی فوجی موجود ہیں۔
اسد نے اپنا اقتدار بچانے کیلئےباغیوں کے خلاف کارروائیوں کے بدلے میں روس کو طرطوس 49 سال کی لیز پر دیا جس کے بعد 2017 میں روسی صدر پوٹن نے بندرگاہ میں توسیع کرنے کے احکامات جاری کیے۔
پچھلے ماہ باغیوں کے برق رفتار حملوں کے بعد اب اس روسی فوجی مرکز کا مستقبل واضح نہیں ہے۔
اے ایف پی کا کہنا ہے کہ سیٹلائٹ سے لی گئی طرطوس کی تصاویر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 9 دسمبر کو بندرگاہ میں کوئی روسی جہاز موجود نہیں تھا۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ہفتے کے روز ان رپورٹس کی تردید کی تھی کہ روسی جہاز طرطوس سے جا رہے ہیں۔
حمی میم ایربیس
روس نے شام کے بندرگاہی شہر لاذقیہ کے قریب حمی میم میں واقع ایک سویلین ہوائی اڈے کی سن 2015 میں تعمیر نو کر کے اسے ایک فوجی ایئر بیس میں تبدیل کر دیا تھا۔
روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق یہ ایک محفوظ ہوائی اڈا ہے جس کی حفاظتی حدود اور فضائی دفاع کا دائرہ 250 کلومیٹر تک ہے۔
ماسکو نے شام کی خانہ جنگی کے دوران حکومت مخالف گروپوں کے زیر قبضہ علاقوں پر فضائی حملوں کے لیے اس فضائی اڈ ےکو استعمال کیا تھا۔
روس اپنے فوجیوں کی تعیناتی کے متعلق معلومات جاری نہیں کرتا۔ تاہم بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 2022 میں یوکرین پر روسی فوجی حملے کے بعد سے حمی میم ایئربیس پر تعینات فوجیوں کی تعداد میں نمایاں کمی آ چکی ہے۔
یہ اڈا روس کے نیم فوجی گروپ ویگنر کی آمد و رفت اور لاجسٹک مدد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ روس اس نیم فوجی گروپ کوافریقہ میں کارروائیوں کے لیے استعمال کرتا ہے جہاں کریملن اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)
فورم