|
اسلام آباد — پاکستان کی طاقت ور خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو کورٹ مارشل کی کارروائی میں باضابطہ طور پر چارج شیٹ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کی فوج کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر) کے مطابق لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف چار ماہ قبل 12 اگست کو کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی تھی۔
فیض حمید کو کورٹ مارشل کی کارروائی میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، ریاست کے مفاد کو نقصان پہنچانے اور اختیارات کا غلط استعمال کرکے متعدد افراد کو نقصان پہنچانے کے الزامات کا سامنا ہے۔
کورٹ مارشل کے دوران ملک میں انتشار اور بدامنی سے متعلق واقعات میں بھی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ سے علیحدہ تفتیش ہو رہی ہے۔
آئی ایس پی آر نے واضح کیا ہے کہ اس میں نو مئی 2023 سے جڑے واقعات کی تفتیش بھی شامل ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ان واقعات میں مذموم سیاسی عناصر سے ملی بھگت کی بھی تفتیش ہو رہی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق کورٹ مارشل کے دوران فیض حمید کو قانون کے مطابق تمام حقوق فراہم کیے جا رہے ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر اسلام آباد میں زمینوں پر قبضے سے متعلق ایک درخواست وزارت دفاع کو دی گئی تھی جس پر باقاعدہ کارروائی شروع کی گئی۔ اس کیس میں فیض حمید پر الزام تھا کہ انہوں نے نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کے قریب ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کو اغوا کیا تھا۔ بعد ازاں ان پر دہشت گردی کا کیس بنا دیا گیا۔
یہ اطلاعات موجود ہیں کہ فیض حمید یہ اراضی اپنے بھائی کے نام کرنے کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ تاہم فیض حمید کے بھائی اس کی تردید کر چکے ہیں۔
اسلام آباد کی ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز نے نومبر 2023 میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں الزام لگایا تھا کہ مئی 2017 میں جنرل فیض حمید کی ایما پر ٹاپ سٹی کے دفتر اور اُن کی رہائش پر آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے چھاپہ مارا تھا۔
فیض حمید سے اب نو مئی 2023 کے دن فوجی تنصیبات پر مبینہ حملوں اور پرتشدد واقعات میں ملوث کی تفتیش بھی ہو رہی ہے۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے میاں علی اشفاق کو اپنا وکیل مقرر کر دیا ہے۔ میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کی کہ لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید نے ان کو اپنا وکیل نامزد کیا ہے۔
نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں پی ٹی آئی کے سو سے زائد کارکنوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت شروع کی گئی تھی جو اب زیرالتوا ہیں۔
اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان ان تمام الزامات سے انکار کرتے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی نے نو مئی کو فوجی تنصیبات پر منظم حملے کیے۔
تاہم فوج اور حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر ان واقعات کی مںصوبہ بندی اور حملوں کا بالواسطہ یا براہِ راست الزام عائد کیا جاتا ہے۔
نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے کئی رہنما اور کارکن گرفتار ہوئے اور کئی رہنماؤں نے پارٹی سے علیحدگی بھی اختیار کی۔
واضح رہے کہ اگست میں پاکستان کی فوج نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو تحویل میں لے کر ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
فوج کے اس اعلان کے ایک ہفتے بعد عدالت میں پیشی کے موقعے پر پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا سارا ڈرامہ مجھے فوجی عدالت لے جانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘
بعد ازاں فوج نے اگست میں ہی فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران مزید تین سابق فوجی افسران کو تحویل میں لینے کا اعلان کیا تھا۔
اس وقت آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ ان تین ریٹائرڈ افسران کو فوج کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا ہے۔
مقامی میڈیا نے بتایا تھا کہ حراست میں لیے گئے افراد میں چکوال سے تعلق رکھنے والے بریگیڈیئر نعیم اور بریگیڈیئر غفار سمیت کرنل ریٹائرڈ عاصم شامل ہیں۔ تاہم اس کے بعد اس بارے میں مزید تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
ماضی میں لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا نام 2017 میں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے فیض آباد دھرنے کے دوران سامنے آیا جس میں اُنہوں نے ضامن کا کردار ادا کیا تھا۔
تاہم پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے دور میں اُن کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور پی ٹی آئی کے ساتھ قربتوں کا چرچا رہا۔
ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے فیض حمید کا نام لے کر عدالت پر دباؤ ڈالنے، پاناما کیس میں ججز کو کنٹرول کرنے یا پھر وزیرِ اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم کی گفتگو ریکارڈ کرنے کا الزام ہو، ہر معاملے میں فیض حمید کا نام سامنے آتا رہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت پی ٹی آئی مخالف دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما کئی مواقع پر لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر پی ٹی آئی کی حمایت کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
ان جماعتوں کا یہ الزام رہا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں جنرل فیض حمید اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تحریکِ انصاف کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کی۔
تاہم جنرل باجوہ اور جنرل فیض اپنے قریبی ذرائع کے ذریعے ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
’اب وعدہ معاف گواہ سامنے آئیں گے‘
تجزیہ کار قمر چیمہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے فیض حمید کے خلاف فردجرم عائد کرکے پیغام دیا ہے کہ وہ خود احتسابی پر یقین رکھتی ہے اور اس مقصد کے لیے تھری سٹار جنرل کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ نو مئی کے مقدمات سے متعلق یہ سویلین عدالتوں کو بھی پیغام ہے کہ ہم اگر ایک کیس اتنی جلدی مکمل کرسکتے ہیں تو ان عدالتوں کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔
ان کے بقول یہ عمران خان کے لیے این آر او کی بات کرنے والوں کو بھی پیغام ہے کہ اگر وہ اپنے جنرل کو معاف نہیں کررہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی ہورہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کسی کو رعایت نہیں دی جائے گی۔
تجزیہ کار اور سینئر صحافی سلمان غنی کا کہنا تھا فیض حمید کے خلاف کیس میں اب سنجیدہ مرحلہ آگیا ہے اور اب یہ معاملہ یہاں نہیں رکے گا بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اور لوگ بھی اس میں شامل ہوں گے۔
سلمان غنی نے کہا کہ یہ کیس جلد شروع ہورہا ہے جس میں فیض حمید کو اپنی صفائی پیش کرنے کا باقاعدہ موقع دیا جائے گا۔اس مقصد کے لیے انہیں باقاعدہ طور پر وکیل بھی دیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیض حمید ایک حساس عہدے پر تھے اور انہوں نے اپنے اس منصب کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔
ان کے بقول پاکستان فوج ایسے معاملات کبھی معاف نہیں کرتی اور یہ بات فیض حمید تک نہیں رکے گی بلکہ اس کا سراغ عمران خان تک جائے گا۔ بہت سے لوگ وعدہ معاف گواہ بنیں گے اور فیض حمید کے خلاف ہونے والی کارروائی پاکستان کی تاریخ میں پر اثرا انداز ہونے والے نتائج کی حامل ہوگی۔
انہوں نے نو مئی کے واقعات سے متعلق کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں ملک بھر میں فوج تنصیبات پر ایک ہی وقت میں حملوں کا منصوبہ بنا سکیں۔
ان کے بقول یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اس میں کوئی مائنڈسیٹ کام کررہا تھا۔ اس کیس میں وعدہ معاف گواہ تیار ہیں اور عمران خان سمیت کئی لوگ اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
اس معاملے اپنے ردِ عمل میں پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ عمران خان ضمیر کے قیدی ہیں، فیض حمید یا کسی بھی دوسرے شخص کے نام پر انہیں زیرِ عتاب لانے کی ریاستی کوشش قوم کی نگاہوں میں کبھی قبولیت نہیں پاسکتی۔
پی ٹی آئی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فیض حمید افواجِ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔