امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں تیزی آ گئی ہے، جس سے17 سال سے جاری افغان بحران کے خاتمے کی امید ہو چلی ہے۔ ایسے میں روس نے افغان اپوزیشن رہنماؤں اور طالبان کے درمیان بات چیت کی میزبانی کا اعلان کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے، ’رائٹرز‘ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ماسکو نے اس عمل میں افغان حکومت کو مکمل نظرانداز کیا، تاکہ طالبان کی مذاکرات میں شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ طالبان افغان صدر اشرف غنی کے نمائندوں کو امریکہ کی کٹھ پتلیاں قرار دیتے ہوئے ان سے بات چیت سے انکار کرتے ہیں۔
ایک روسی اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا ہے کہ سینئر طالبان رہنما اور اہم افغان سیاست دان اجلاس میں شرکت کے لئے ماسکو آئیں گے، اور، یہ مذاکرات منگل کے روز ہوں گے۔
روسی اہل کار نے بتایا ہے کہ ’’یہ ایک حساس مرحلہ ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ افغان حکومت کے نمائندے اس بات چیت میں شرکت نہ کریں‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماسکو مذاکرات سے افغانستان میں روس کا بڑھتا ہوا رثر و رسوخ واضح ہوتا ہے۔ روس کے افغانستان میں تجارتی منصوبے ہیں؛ سفارتی اور کلچرل موجودگی ہے؛ اور روس محدود پیمانے پر افغان حکومت کو فوجی تعاون بھی فراہم کر رہا ہے۔ ادھر افغانستان میں حکومت، طالبان کے زیر قبضہ اضلاع کو چھڑانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔
امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل آف افغانستان ری کنسٹرکشن کی تازہ رپورٹ کے مطابق، ’’افغان حکومت کا مختلف علاقوں پر کنڑول اور اثر و رسوخ مسلسل کم ہو رہا ہے‘‘۔
ادھر، جمعے کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں شرکت کرتے ہوئے، تجزیہ کاروں ڈاکٹر زمرد اعوان، سرور احمد زئی اور اکرام سہگل نے امریکہ طالبان مذاکرات، مجوزہ ماسکو بات چیت اور افغانستان سے متعلق امریکی اسپیشل انسپیکٹر جنرل کی رپورٹ کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
افغان تجزیہ کار، سرور احمد زئی نے کہا ہے کہ طالبان کا یہ دعویٰ کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد وہ القاعدہ اور داعش کا مقابلہ کر سگیں گے، ’’درست معلوم نہیں ہوتا، چونکہ افغانستان کی تین لاکھ فوج اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے‘‘۔
عبوری دور سے متعلق، سرور احمد زئی نے کہا کہ ’’افغان طالبان کو پتا ہے کہ آئندہ دو برسوں میں انتخابات ہونے کی صورت میں وہ الیکشن نہیں جیت سکتے، اس لیے وہ افغان حکومت میں اپنے حصے کی ضمانت مانگ رہے ہیں، جس سلسلے میں ایران، چین اور روس بھی دلچسپی رکھتا ہے‘‘۔
اس سلسلے میں، اُنھوں نے کہا کہ طالبان افغان حکومت سے براہ راست بات چیت پر رضامند دکھائی نہیں دیتے، جب کہ طالبان قیادت کی جانب سے اس بات کا عندیہ نہیں ملا آیا وہ افغان حکومت سے گفتگو کریں گے۔
تجزیہ کار، ڈاکٹر زمرد نے کہا ہے کہ ’’ابھی تک یہ واضح نہیں آیا افغان حکومت طالبان کو کس حد تک قبول کرنے کے لیے تیار ہے، جس ضمن میں افغان حکومت کیا رول ادا کرسکتی ہے؛ جب کہ طالبان افغان حکومت سے بات چیت سے انکار کر رہے ہیں‘‘۔ ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت، زلمے خلیل زاد کے ساتھ طالبان کی دو ملاقاتوں کے دوران ’’پاکستان نے اپنا رول ادا کیا ہے‘‘۔
طالبان امریکہ مجوزہ سمجھوتےکی یہ شرط کہ القاعدہ اور داعش سے نمٹنے کے لیے طالبان اپنا کردار ادا کریں گے اور یہ کہ افغان سرزمین کسی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، ڈاکٹر زمرد نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے درمیان 2500 کلومیٹر طویل سرحد پر 900 کلومیٹر کی باڑ لگ چکی ہے، جس سے، بقول اُن کے،’’پاکستان کی سنجیدگی‘‘ کا پتا چلتا ہے۔
ڈاکٹر زمرد نے کہا کہ ’’خطے کا استحکام تمام ملکوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے‘‘۔
ساتھ اُنھوں نے کہا کہ افغان صدر یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ کوئی معاملہ ایسا نہیں ہوگا جو افغان عوام کے مفاد میں نہ ہو؛ جب کہ اگر طالبان کو یہ لگا کہ اُن کےساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے تو وہ امن عمل سے کسی بھی وقت باہر نکل سکتے ہیں‘‘۔ اس لیے، ڈاکٹر زمرد نے کہا کہ ’’بات چیت کا یہ ایک نہایت ہی نازک مرحلہ ہے‘‘۔
دفاعی تجزیہ کار، اکرام سہگل نے کہا ہے کہ ماضی میں امریکہ نمائندہ خصوصی خلیل زاد طالبان مخالف تھے، ’’اگر وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں تو یہ امر بذات خود ایک اہم پیش رفت کی جانب اشارہ کرتا ہے‘‘۔ بقول اکرام سہگل، ’’کہا جاسکتا ہے کہ معاملہ حل کی جانب بڑھ رہا ہے‘‘۔
ادھر رائٹرز کی خبر میں سابق افغان صدرحامد کرزئی کے لیے کہا گیا ہے کہ اُن کے خیال میں ’’روس افغانستان میں طویل عرصے سے جاری امریکی جنگ کے خاتمے کے لئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے‘‘۔ ان سمیت، افغان حکومت کے ناقدین کی میزبانی نے کابل اور امریکی حکام کو برہم کر دیا ہے۔
رپورٹ میں ایک سینئر امریکی عہدیدار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ روس ایک بار پھر امریکی حمایت یافتہ امن عمل اور افغانستان کی سیاسی صورت حال کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے؛ اور یہ کہ طالبان اور صدر اشرف غنی کے مخالفین کی میزبانی افغان حکومت کو نیچا دکھانے کی ایک کوشش ہے۔
طالبان کے قطر میں موجود دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے ماسکو میں دو روزہ مذاکرات ہوں گے۔ سینئر رہنما محمد عباس ستنکزئی کی قیادت میں ایک وفد مذاکرات میں شریک ہو گا۔
گزشتہ نومبر میں روس نے افغان جنگ کے خاتمے کی کوششوں کے سلسلے میں ایک اجلاس کی میزبانی کی تھی، جس میں طالبان اور امریکہ سمیت مختلف ممالک کے نمائندوں نے حصہ لیا تھا۔
روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخارووا کا کہنا ہے کہ روس نے جنوری میں واشنگٹن کی امن کوششوں کا خیر مقدم کیا تھا۔ لیکن، بقول اُن کے، امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی طالبان کو افغان حکومت سے بات چیت پر آمادہ کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔
افغانستان میں امریکہ کے 14000 فوجی نیٹو کی سربراہی میں رزولیوٹ سپورٹ مشن کا حصہ ہیں۔