رسائی کے لنکس

پوٹن کے صدر بننے سے امریکہ اور روس کے تعلقات پر ممکنہ اثرات


روس کے صدر میدویدف اور وزیراعظم پوٹن
روس کے صدر میدویدف اور وزیراعظم پوٹن

اگلے سال روس کے صدر دیمتری میدویدف اور وزیرِ اعظم ولادیمر پوٹن کے درمیان عہدوں کا تبادلہ ہو جائے گا۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی کہ ولادیمر پوٹن نے نے اگلے سال صدر کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ دمتری میدویدف کی جگہ صدر بن جائیں جن کے بارے میں توقع ہے کہ وہ اگلی حکومت میں وزیرِ اعظم ہوں گے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مسٹر پوٹن کی فتح یقینی ہے کیوں کہ روس میں سیاسی مخالفت ختم کی جا چکی ہے اور میڈیا تقریباً پوری طرح روسی قیادت کے کنٹرول میں ہے ۔

سوال یہ ہے کہ امریکہ اور روس کے تعلقات پر پوٹن کے دوبارہ صدر بننے کا کیا اثر پڑے گا۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس معاملے میں اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ روس کےاگلے صدر کے بارے میں فیصلہ کرنا روس کے لوگوں کا کام ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، تو جو کوئی بھی نیا صدر منتخب ہوگا ہم اس کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا مل جُل کر کام کرنا امریکہ، روس اور دنیا کے مفاد میں ہے۔‘‘

بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 2008ء کے مقابلے میں جب روس اور جارجیا کی ایک مختصر سی جنگ ہوئی تھی ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات آج کل اچھے ہیں۔

دمتری میدویدف کے عہدِ صدارت میں واشنگٹن اور ماسکو نے تخفیفِ اسلحہ کے ایک بڑے سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں اور افغانستان، ایران اور لیبیا جیسے مسائل پر زیادہ تعاون ہوا ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی میں روس کے امور کے ماہر رابرٹ لیگولڈ کہتے ہیں کہ امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات میں بتدریج پیش رفت ہو رہی ہے۔ ’’لیکن اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ تعلقات بہت کمزور ہیں۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ پیش رفت جاری رہے گی۔ بعض ایسے واقعات ہو سکتے ہیں جن پر کسی ایک فریق کا یا دونوں کا رد عمل غیر معقول یا مبالغہ آمیز ہو جائے یا یہ بھی ممکن ہے کہ واقعات ہی ایسے ہوں جن پر سخت رد عمل کا جواز موجود ہو۔‘‘

رابرٹ لیگولڈ کہتے ہیں کہ امریکی انتخاب کے نتائج بھی تعلقات پر اثر انداز ہو سکتےہیں۔ ’’ہم یہ تو جانتے ہیں کہ روسی انتخاب کا نتیجہ کیا ہو گا۔ واشنگٹن میں اوباما انتظامیہ کی توقع یہ ہے کہ روس کی پالیسی میں تسلسل جاری رہے گا۔ لیکن یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہے کہ امریکہ کے نومبر 2012ء کے انتخاب کے بعد بھی امریکی پالیسی میں تسلسل برقرار رہے گا۔‘‘

بہت سے ماہرین متفق ہیں کہ ولادیمر پوٹن کے دوبارہ صدر بننے کے بعد، امریکہ اور روس کے تعلقات میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔

روسی صدر اپنے اپنے امریکی ہم منصب کے ہمراہ
روسی صدر اپنے اپنے امریکی ہم منصب کے ہمراہ

کارینگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے میتھو راجانسیکی کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کی حیثیت سے مسٹر پوٹن اگر تمام فیصلے خود نہیں کر رہے تھے تو بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں وہ تمام اہم فیصلے کم از کم منظور ضرورکرتے تھے۔

’’لہٰذا مثال کے طور پر، تخفیفِ اسلحہ کے نئے اسٹارٹ سمجھوتے کے واپس لیے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ افغانستان کے مسئلے میں تعاون بھی جاری رہے گا۔ لیبیا کے معاملے میں اقوامِ متحدہ کی نو فلائی زون کی قرارداد جسے روس نے بلاک نہیں کیا مشکل تھی اور پوٹن کو کچھ اختلافات تھے جن کا اظہار انھوں نے کیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ بالآخر میدویدف کے ساتھ ان کا اتفاق رائے ہو گیا۔ میرے خِیال میں وہ دونوں ایک یونٹ کی طرح کام کرتے ہیں۔‘‘

میتھو کا خیال ہے کہ امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات میں کوئی ٹھوس تبدیلی تو نہیں آئے گی لیکن ان کا لب و لہجہ بدل سکتا ہے۔ ’’اوباما نے بڑی محنت سے میدویدف کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کیے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہ کام نسبتاً آسان تھا کیوں کہ ان دونوں کا پس منظر ایک جیسا ہے۔ وہ دونوں وکیل ہیں، دونوں کا رجحان ٹیکنالوجی کی طرف ہے اور دونوں اپنی سوچ میں عالمگیریت کی طرف مائل ہیں۔ پوٹن میں یہ سب چیزیں نہیں ہیں۔ میرے خِیال میں پوٹن اور اوباما اپنے تعلق کو اپنی شخصیتوں اور ایک دوسرے میں دلچسپی کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھا سکتے۔‘‘

تجزیہ کاروں کا ایک بات کا یقین ہے اور وہ یہ ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات گذشتہ برسوں میں اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اب یہ بات نا ممکن ہے کہ ان کے درمیان سرد جنگ کی کشیدگی کا دور کبھی واپس آئے۔

XS
SM
MD
LG