وزیرِ اعظم ولادیمر پوٹن نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ وہ اگلے مارچ میں صدارت کے عہدے کی تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے کو تیار ہیں۔ یوں مہینوں کی قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہو گیا۔ اس سے قبل مسٹر پوٹن 2000 ء سے 2008 ء تک روس کے صدر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ میڈیا اور سیاسی پارٹیوں پر روس میں حکومت کو جو کنٹرول حاصل ہے، اس کی روشنی میں ، 58 سالہ مسٹر پوٹن اس بار بھی یقینی طور پر یہ مقابلہ جیت لیں گے۔
روس کا آئین تبدیل ہو چکا ہے، اور اب صدر دو بار چھ سال کی مدت کے لیے اس عہدے پر فائز رہ سکتے ہیں۔ اگر وہ دو بار صدارتی انتخاب جیت لیتے ہیں، تو وہ 2024 ء تک روس کے صدر رہیں گے۔ حالیہ تاریخ میں، صرف صدر جوزف اسٹالن نے روس پر اتنے طویل عرصے تک حکومت کی ہے ۔
ماسکو میں یونائیٹڈ رشیا پارٹی کے کنونشن میں تقریر کرتے ہوئے، وزیرِ اعظم پوٹن نےحکمراں پارٹی کے 4 دسمبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخاب کی فہرست میں سب سے پہلے صدر دمتری میدویدف کو نامزد کیا ۔ اس کے بعد مسٹر پوٹن نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ مسٹر میدویدف روس کے وزیرِ اعظم ہوں گے۔
تجزیہ کار ایک عرصے سے یہی کہہ رہے تھے کہ صدارت کے لیے مسٹر میدویدف کا تقرر محض اس مدت کے لیے کیا گیا تھا جب تک آئینی تقاضے پورے کرنے کے لیے مسٹر پوٹن کو صدارت کا عہدہ چھوڑنا ضروری تھا۔ آج ان دونوں نے سرِ عام کہا کہ چار سال قبل، مسٹر میدویدف کی عہد صدارت کی ابتدا میں، انھوں نے عہدوں کی ادل بدل کا یہ سودا کر لیا تھا۔
مسٹر میدویدف نے کہا کہ یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا اور انھوں نے مسٹر پوٹن کے ساتھ بیٹھ کر روس کے معاملات چلانے کے اس انتظام کے بارے میں بات چیت کر لی تھی۔ یونائیٹڈ رشیا پارٹی کے ہفتے کے روز کے کنونشن میں ان الزامات کی بازگشت سنائی دی کہ یہ پارٹی سوویت یونین دور کی کمیونسٹ پارٹی کی روحانی جانشین ہے۔
روس کے سب سے بڑے اسپورٹس اسٹیڈیم کی ایک بڑی منظم تقریب میں، سیاہ سوٹوں میں ملبوس مندوبین نے امیدواروں کی فہرست کو جس میں سب سے اوپر صدر میدویدف کا نام درج تھا، تقریباً متفقہ طور پر منظور کر لیا۔
مسٹر پوٹن جوڈو کے ماہر ہیں اور ٹیلیویژن پر ان کے مختلف روپ دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔ حال ہی میں انھوں نے بحر اسود کی تہ میں خزانے کی تلاش کے لیے خصوصی سوٹ پہنا ہوا تھا۔ اور پھر انھوں نے سیاہ چمڑے کا سوٹ پہنا اور ایک موٹر سائیکل کلب،وولفس آف دی نائیٹ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ ہفتے کے روز جب ان کے مائکروفون نے کام بند کر دیا، تو وزیرِ اعظم جو سوویت یونین کی خفیہ پولیس، KGB کے سابق کرنل ہیں، گرج کر دھاڑے’’ میرے کمانڈر کی آواز ابھی ختم نہیں ہوئی۔‘‘
لیکن روس کے یہ اداکار لیڈر جتنے مقبول ہیں، ان کی پارٹی اتنی مقبول نہیں۔ چار سال پہلے، آخری پارلیمانی انتخاب میں یونائیٹد رشیا کو 64 فیصد ووٹ ملے تھے ۔ آج کل، مسٹر پوٹن کی مقبولیت کی شرح تو اتنی ہی ہے لیکن پارٹی کی مقبولیت کم ہو کر 40 فیصد رہ گئی ہے ۔
جمعے کے روز، مسٹر پوٹن نے پارٹی کے ارکان کو تنبیہ کی کہ وہ ووٹروں کے دل کی دھڑکن پر کان دھریں۔
ناقدین کہتے ہیں کہ روس میں اقتصادی سرگرمیاں اس سطح پر واپس نہیں آئی ہیں جو تین سال پہلے تھیں جب مغربی دنیا شدید اقتصادی کساد بازاری کا شکار ہوئی تھی۔ کساد بازاری کے ایک اور دور کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے اور روس کے وزیرِ اعظم نے جمعے کے روز پارٹی کے ارکان کو انتباہ کیا کہ ممکن ہے کہ انہیں معیشت میں شدید سادگی کی کڑوی گولی نگلنی پڑے ۔
ہفتے کے روز، ان کے وزیرِ مالیات ایلکسے کدرِن نے واشنگٹن میں روسی رپورٹروں کو انتباہ کیا کہ روس سمیت، ساری دنیا کو ایک ایسے عشرے کا سامنا ہے جس میں اقتصادی ترقی کی شرح بہت کم رہے گی۔ اس ہفتے، روس میں اسٹاک مارکٹس اور زر مبادلہ کی مارکٹس گذشتہ دو برسوں میں سب سے نیچی سطح پر آگئیں۔ اس سال، توقع ہے کہ روس سے 35 ارب ڈالر کا سرمایہ ملک سے باہر چلا جائے گا۔