|
روس کے شمالی علاقے یاکوشا میں سائنس دانوں نے ایک بھیڑیے کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ اس بھیڑیے کی لاش تقریباً 44 ہزار سال پرانی بتائی گئی ہے۔
بھیڑیا برف کی موٹی تہہ میں دبا رہا تھا جس کی وجہ سے 44 ہزار سال گزر جانے کے باوجود بھی اس کا جسم محفوظ رہا اور گل سڑ کر بکھرنے سے بچ گیا۔
سائنس دانوں نے بتایا ہے کہ انہیں بھیڑیے کی لاش 'پرما فراسٹ' سے ملی ہے۔
پرما فراسٹ ایک سائنسی اصطلاح ہے جس کا مطلب کوئی ایسی برف ہے جو مسلسل کئی سال سے جمی ہوئی ہو۔ یعنی ایسی برف کا درجۂ حرارت صفر ڈگری سیٹی گریڈ سے نیچے رہے تو اسے 'پرما فراسٹ' کہا جاتا ہے۔
ہمارے گلیشیئرز پرما فراسٹ کی ایک نمایاں مثال ہیں۔ آپ کے لیے یہ بات یقیناً دلچسپ ہو گی کہ دنیا میں ایسے پرما فراسٹ بھی موجود ہیں جو سات لاکھ سال سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔
زمین کا درجۂ حرارت بڑھنے سے گلیشئرز اور پرما فراسٹ پگھل رہے ہیں اور بعض مقامات پر برف پگھلنے کے بعد ایسی چیزیں مل رہی ہیں جو سینکڑوں اور ہزاروں سال پہلے برف میں دب کر محفوظ ہو گئیں تھیں اور اب تقریباً اپنی صحیح حالت میں سامنے آ رہی ہیں۔
اس کی ایک واضح مثال یاکوشا سے ملنے والا بھیڑیا ہے جو 44 ہزار سال پہلے برف میں دب گیا تھا۔
آزاد فضاؤں میں رہنے والے بھیڑیے تقریباً چھ سے آٹھ سال تک کی عمر پاتے ہیں۔ اگر یاکوشا سے ملنے والا بھیڑیا پرما فراسٹ میں نہ دب گیا ہوتا تو اس کی ہڈیاں کب کی مٹی بن چکی ہوتیں۔
بھیڑیے کا شمار شکاری جانوروں میں ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بھیڑیے کی نسل تقریباً 20 سے 30 لاکھ سال پہلے وجود میں آئی تھی اور پھر اس نے ارتقا کی مختلف منزلیں طے کیں۔
شاید آپ کو یہ معلوم ہو کہ کتا بھیڑیے کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ اسے بھیڑیے کا کزن بھی کہہ سکتے ہیں۔
تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار سال پہلے بھیڑیوں کے ایک گروپ نے انسانوں کے ساتھ رہنا شروع کر دیا تھا۔ وہ نسل آج کتے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اور وہ انسان کا سب سے زیادہ وفادار پالتو جانور بن چکا ہے۔
بات 44 ہزار سال پرانے بھیڑیے کے پوسٹ مارٹم سے شروع ہوئی تھی۔ یہ 2021 کا واقعہ ہے کہ یاکوشا کے علاقے ابیسکی میں قدیم برف پگھلنے پر وہاں کے لوگوں کو ایک بھیڑیے کی لاش نظر آئی جو درست حالت میں تھی۔
انہوں نے اسے حکام کے حوالے کر دیا جنہوں نے اسے تحقیق کے لیے سائنس دانوں کے پاس بھیج دیا۔
یاکوشا روس کے قطبی علاقے میں واقع ہے اور اس کا 95 فی صد حصہ پرما فراسٹ سے ڈھکا ہوا ہے جب کہ باقی ماندہ پانچ فی صد حصے پر گھنے جنگلات ہیں۔
سردیوں کے موسم میں وہاں کا درجہ حرارت صفر سے 64 درجے سینٹی گریڈ نیچے تک گر جاتا ہے جب کہ گرمیوں میں بھی وہاں کا درجۂ حرارت صفر سے نیچے ہی رہتا ہے۔
یاکوشا کی اکیڈمی آف سائنسز میں دودھ پلانے والے جانوروں کے شعبے کے سربراہ البرٹ پروٹوپوف کہتے ہیں کہ یہ پہلی ایسی دریافت ہے جس کا تعلق برفانی دور سے ہے۔
اب ذرا برفانی دور کی بھی بات بھی ہو جائے۔ آج کل دنیا میں ہر جگہ ہائے گرمی ہائے گرمی کا شور برپا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انسان کی پیدا کردہ کاربن گیسوں سے زمین گرم ہو رہی ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ زمین پر ایک ایسا دور بھی گزرا ہے جو برف کی مانند سرد تھا۔ اسے 'برفانی دور' کا نام دیا جاتا ہے۔
برفانی دور کی شروعات لگ بھگ 26 لاکھ سال پہلے ہوئی تھی اور اس کا اختتام تقریباً ساڑھے 11 ہزار سال قبل ہوا تھا اور رفتہ رفتہ زمین کا درجۂ حرارت معتدل ہو کر حیات کے پنپنے کے قابل ہو گیا۔
البرٹ پروٹوپوف کہتے ہیں کہ ہمیں اس سے قبل 44 ہزار سال پہلے کے کسی جان دار کی لاش نہیں ملی۔
پرٹوپوف کا کہنا تھا کہ یاکوشا کے جنگلاتی علاقوں میں عموماً سبزی خور جانور خوراک کی تلاش میں جاتے ہیں جب کہ گوشت خور بھیڑیے ان کا پیچھا کرتے ہیں۔ بعض دفعہ جانور برف میں پھنس جاتے ہیں اور پھر انہیں برف کی نئی تہیں ڈھانپ لیتی ہیں۔ لیکن کسی گوشت خور جانور کی لاش کا اس علاقے سے ملنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یاکوشا سے ملنے والا بھیڑیا بہت چست تھا، وہ جسامت کے اعتبار سے بڑا تھا اور اس کا حجم اُس دور کے شیروں اور ریچھوں سے قدرے کم تھا۔
یورپیئن یونیورسٹی آف سینٹ برگ کے ایک سائنس دان آرتیوم نیدولوز نے برفانی دور کے 44 ہزار سال پرانے بھیڑیے کے پوسٹ مارٹم کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ماہرین یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ برفانی دور میں بھیڑیوں کی خوراک کیا تھی۔ اس نے اپنی ہلاکت سے قبل کیا کھایا تھا اور اس کا تعلق بھیڑیوں کی کس نسل سے تھا۔
(اس تحریر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئیں ہیں۔)