ترک صدر رجب طیب اردوان نے روسی صدر ولادی میر پوٹن سے کئی ماہ میں چوتھی بار جمعرات کے روز ملاقات کی ۔ یہ متعدد ملاقاتیں اور قریبی تعلقات ترکی کے مغربی اتحادیوں میں ان خدشات کو ہوا دے رہی ہیں کہ انقرہ روس کے خلاف پابندیوں سے گریز کر رہا ہے۔
تازہ ترین ملاقات ایشیا میں ربط ضبط اور اعتماد سازی کے اقدامات پر آستانہ میں منعقدہ سر براہی کانفرنس کے موقع پر الگ سے ہوئی تھی ۔
اپنی ملاقات کے بعد اردوان نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے اس معاہدے کی کامیابی کوتقویت دیں جو روس کی بحری فورسز کی جانب سے روکے جانے والے یوکرین کے اناج کو دنیا کی منڈیوں میں داخلے کی اجازت دیتا ہے ۔
اردوان نے کہا کہ ترکی استنبول معاہدے کے تحت اناج کی برآمدات کو مستحکم اور جاری رکھنے ، اور روسی اناج اور فرٹلائزر کو ترکی کے راستے کم ترقی یافتہ ملکوں تک پہنچانے کے لئے پر عزم ہے ۔
ماسکو کے ساتھ قریبی تعلقات بر قرار رکھنے پر زور دیتے ہوئے انقرہ روس کے خلاف مغربی پابندیوں پر عمل درآمد سے انکار کرتا ہے ۔ یورپی یونین نے اس ہفتے ایک رپورٹ میں انقرہ پر پابندیوں کا نفاز نہ کرنے پر سخت تنقید کی تھی ۔
واشنگٹن نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ایسی شکایات میں اضافے کا امکان ہے جب کہ جمعرات کو پوٹن نے اس تجویز کا اعادہ کیا ہے کہ روسی گیس کی تقسیم کے لئے ترکی کو ایک مرکز کے طور پر استعمال کیا جائے جو ابتدائی طور پر یورپ کے لئے تھی ۔
اردوان نے اس تجویز پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
انقرہ نے یوکرین اور روس کے درمیان ، استنبول معاہدے کے طور پر معروف اناج کے معاہدے کی ثالثی میں اقوام متحدہ کی معاونت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے پوٹن نے جمعرات کے روز معاہدے پر یہ دعوی کرتے ہوئے تنقید کی کہ ضرورت مند ملک اس معاہدے سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔
اس معاہدے کی اگلے ماہ تجدید ہو گی ۔
لندن میں قائم چیتھم ہاوس کے Galip Dalay کا کہنا ہے کہ یوکرین کے اناج کے معاہدے کو پوٹن کے ساتھ قریبی تعلقات بر قرار رکھنے کی اردوان کی پالیسی کا ایک مظہر سمجھا گیا ہے ۔
بلیو بے ایسیٹ مینیجمنٹ کے سینئیر تجزیہ کار ٹموتھی ایش نے کہا ہے کہ پوٹن اپنے مغربی دشمنوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے او ر اردوان میں ایک رضامند شراکت دار تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ، پوٹن کے لئے ترکی کے ساتھ تعلقات اہم ہیں کیوں کہ یہ یورپ میں تقسیم سے متعلق ہیں۔ ترکی نیٹو کا ایک اہم رکن ہے ۔ وہ اردوان کو جتنا زیادہ قریب لا سکتے ہیں اور ترکی کو مغرب سے دور کر سکتے ہیں اتنا ہی ان کے لئے بہتر ہے ۔
اردوان کے لئے یہ اس لئے بہتر ہے کہ انہیں اگلے سال جون میں انتخابات درپیش ہیں اور انہیں ادائیگیوں میں توازن کا بہت مشکل مسئلہ درپیش ہے ۔ اور ان کا خیال ہے کہ روس کو پابندیوں سے نمٹنے میں مدد کر کے ترکی اس مسئلےسے نمٹ سکتا ہے ۔
انقرہ اس سے انکار کرتا ہے کہ وہ پابندیوں کو توڑ رہا ہے ۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اردوان روس کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرتے ہوئے اور ساتھ ساتھ یہ جانتے ہوئے کہ ماسکو کے ساتھ ان کے تعلقات امریکہ اور یورپ کی جانب سے ثانوی پابندیوں کی شکل میں انتقامی کارروائیوں کو جنم دے سکتے ہیں، بہت مشکل راستے پر چل رہے ہیں ۔