رسائی کے لنکس

شام کا بحران، روسی تجاویز میں اسد کو ہٹانا شامل نہیں


روسی فضائی حملے
روسی فضائی حملے

آٹھ نکاتی مسودہ دیکھنے والے تمام حلقے کہتے ہیں کہ اس میں شام میں آئندہ کے سیاسی عبوری دور کے دوران اسد کے دست بردار ہونے کا کوئی ذکر نہیں، جو شام کی خانہ جنگی میں ملوث تمام اپوزیشن گروپس، امریکہ اور اُس کے اتحادیوں اور متعدد عرب ملکوں کا مطالبہ ہے

شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے روس کے منصوبے میں 18 ماہ کے اندر اندر یا مسودہ آئین تیار کرنے کے لیے کہا گیا ہے، جس کے بعد 2017ء میں صدارتی انتخابات ہوں گے۔ شام میں مخالف گروپوں کا کہنا ہے کہ روسی تجاویز کا مقصد صدر بشار الاسد کو اقتدار میں رکھنا ہے جو قابل قبول نہیں۔

مغربی سفارت کاروں نے کہا ہے کہ لگتا یوں ہے کہ ہفتے کو شام کے بحران پر ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات کے دوسرے دور میں ان تجاویز کو پیش کیا جائے گا۔ اہم، اُنھوں نے عندیہ دیا ہے کہ منصوبے کو ویانا کے اجلاس میں شرکت کرتے والے متعدد وفود کی جانب سے وسیع حمایت حاصل نہیں ہو سکےگی۔

مغربی میڈیا کو موصول ہونے والی اس روسی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ شام کے بحران کے حل کا یہ روس کا ایسا انداز ہے، جسے اب تک باضابطہ طور پر امن کی شکل اختیار نہیں ہو پائی۔

آٹھ نکاتی مسودہ دیکھنے والے تمام حلقے کہتے ہیں کہ اس میں شام میں آئندہ کے سیاسی عبوری دور کے دوران اسد کے دست بردار ہونے کا کوئی ذکر نہیں، جو شام کی خانہ جنگی میں ملوث تمام اپوزیشن گروپس، امریکہ اور اُس کے اتحادیوں اور متعدد عرب ملکوں کا مطالبہ ہے۔

مغربی پشت پناہی والے ’سیریئن نیشنل کولیشن‘ نے روسی تجاویز کی کھل کر مذمت کی ہے۔

رائٹرز کے مطابق، منظر ابیک نے کہا ہے کہ ’شام کی عوام نے کبھی بھی اسد کی آمریت قبول نہیں کی اور وہ کبھی یہ تسلیم نہیں کرے گی کہ پھر کبھی ایسی بات کی جائے یا پھر کسی نئے زاوئے سے یہی بات دہرائی جائے‘۔

شام کے بحران کو حل کرنے کے لیے، شام کے مضبوط حامی، روس نے حال ہی میں سفارتی کوششوں میں تیزی لایا ہے، جس تنازعے کے باعث پانچ برس کے دوران 250000 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ شام میں باغیوں کے قبضے میں علاقے پر سینکڑوں فضائی حملے کر چکا ہے۔

ماسکو یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اُس کی فضائی کارروائی کا ہدف داعش کا شدت پسند گروپ ہے۔ لیکن، شام سے آنے والی اطلاعات اور مغربی ملکوں کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ روسی پائلٹوں کی جانب سے گرائے جانے والے بموں کا ہدف داعش کے برعکس اپوزیشن گروپ بنے ہوئے ہیں۔

شام سے موصول ہونے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ روس کی فضائی کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں متعدد سویلین ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ چھ ہفتوں کے دوران روسی فضائی حملوں کا نشانہ 85 سے 90 فی صد وہ لوگ ہیں جو شام میں اسد مخالف اپوزیشن کے معتدل ارکان ہیں۔

ویانا میں دو ہفتوں کے دوران شام پر ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات کے پہلے دور میں روس نے کہا ہے کہ وہ اس بات کا خواہاں ہے کہ آئندہ کی بات چیت میں مخالف گروپ بھی شرکت کریں۔

تاہم، یہ غیر واضح ہے آیا اسد مخالف گروپوں میں سے کتنے گروپس کو تسلیم کیا جائے گا، یا جنھیں بات چیت میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔

ویانا مذاکرات کے دوسرے دور سے قبل، روس نے کہا ہے کہ اسے توقع ہے کہ گفتگو میں شامل تمام فریق، جس میں امریکہ بھی شامل ہے، اس بات سے اتفاق کریں گے کہ شام میں کارروائیاں کرنے والے گروپوں میں سے کتنے ’دہشت گرد‘ ہیں۔ یہ دوسرا معاملہ ہے جہاں روس کے اسد حامی جذبات پر نااتفاقی ابھر کر سامنے آئے گی۔

شام کی خانہ جنگی میں شروع سے روس اور ایران اسد کے اہم حامی رہے ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ، اُس کے خیلج فارس کے ساتھی اور ترکی سبھی نے کہا ہے کہ امن کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اسد اقدار سے علیحدہ ہوجائیں۔

سعودی عرب اسد کا کھلا مخالف ہے۔ اس کے وزیر خارجہ، عبد الجبیر نے اس ہفتے کہا ہے کہ شام کے صدر کو ہٹایا جانا ضروری ہے۔

ریاض میں عرب اور لاطینی امریکی رہنماؤں کے سربراہ اجلاس کے بعد، اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے، جبیر نے کہا کہ ’اگر بشار الاسد کی علیحدگی اِسی پُرامن طریقے سے تکمیل تک نہیں پہنچتی، تو پھر اسے فوجی طریقے سے مکمل کیا جائے گا‘۔

XS
SM
MD
LG