پاکستانی فلموں کی مقبول اداکارہ صبیحہ خانم ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب 84 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
صبیحہ خانم پچھلے کئی سالوں سے امریکی ریاست ورجینیا میں مقیم تھیں اور یہیں ان کا انتقال ہوا۔ وہ ذیابطیس اور ہائی بلڈ پریشر سمیت کئی امراض میں مبتلا تھیں اور کافی عرصے سے وہ زیر علاج تھیں۔
صبیحہ خانم کی نواسی سحرش خان نے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ صبیحہ خانم اداکار سنتوش کمار کی شریک سفر تھیں۔
ان کا فنی کیرئر دو دھائیوں پر مشتمل تھا۔ 1950 اور 1960 کی 20 سالہ مدت میں انہیں نے سنتوش کمار کے ساتھ کئی کامیاب فلمیں کیں جن میں 'گمنام'، 'دیور بھابی'، 'مکھڑا'، 'وعدہ'، 'حاتم'، 'شیخ چلی' اور 'سرفروش' شامل ہیں۔
'بیلی' ان کی پہلی فلم تھی جو 1950 میں ریلیز ہوئی تھی تاہم انہیں جس فلم نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا وہ 'گمنام' تھی۔
1956 میں ان کی دوسری سب سے کامیاب سمجھی جانے والی فلم 'دلا بھٹی' ریلیز ہوئی۔
صبیحہ خانم پاکستان فلم انڈسٹری کی پہلی سپر اسٹار تھیں جب کہ پہلی پاکستانی گولڈن جوبلی فلم کی ہیروئن ہونے کا اعزاز بھی انہی کو حاصل ہوا۔ انہیں بہترین خدمات کے عوض 1987 میں 'تمغہ حسن کارکردگی' دیا گیا تھا۔
صبیحہ خانم کا پیدائشی نام مختار بیگم اور ان کے شوہر سنتوش کمار کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔ صبیحہ 16 اکتوبر 1935ء کو گجرات میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والدین، محمد علی ماہیا اور بالو بیگم بھی اسٹیج پر اداکاری کیا کرتے تھے۔
ایک دور میں ان دونوں فنکاروں کی جوڑی کو فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔
فلموں کے علاوہ صبیحہ خانم نے 80 اور 90 کی دہائیوں میں پاکستان ٹیلی ویژن کے بہت سے مشہور ڈراموں میں بھی اداکاری کی اور انہیں بام عروج پر پہنچایا۔
فلموں میں آنے کے لیے صبیحہ خانم کو اپنے گھر والوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کا گھرانا مذہبی خیالات کا سخت پابند تھا، ایسے میں انہیں فلموں میں کام کرنے کی اجازت آسانی سے کہاں مل سکتی تھی۔ کافی جدوجہد اور ضد کے بعد بالآخر انہیں فلمی دنیا میں جانے کا موقع ملا۔
ان کی پہلی ہی فلم ' بیلی ' میگا ہٹ ہوئی اور سارے ملک میں ان کے چرچے شروع ہو گئے۔ وہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں لیکن گھر والے اس شہرت سے مزید گھبرا گئے اور بقول صبیحہ گھر والوں نے انہیں جان سے مارنے تک کی دھمکی دے ڈالی تھی۔
اسی دوران صبیحہ خانم نے سنتوش کمار سے شادی کر لی۔ سنتوش کمار کی صبیحہ خانم سے دوسری شادی ہوئی تھی اور ابتدا میں اس پر بھی انہیں اپنے والد کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ایک مرتبہ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ سنتوش کمار سے شادی ان کی زندگی کا سب سے اچھا فیصلہ تھا۔ بطور شوہر سنتوش بہت ہی عظیم انسان تھے۔
وائس آف امریکہ کے لیے ان کا یہ انٹرویو نو سال پہلے 2011 میں نے مدیحہ انور نے کیا تھا۔
صبیحہ خانم نے وی او اے سے انٹرویو کے دوران اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انہیں کئی کئی دن لگاتار اور بغیر سوئے شوٹنگ کرنا پڑتی تھی جب کہ نیند بھگانے کے لیے انہیں اپنی آنکھوں پر برف کی ڈلیاں بھی ملنا پڑتی تھیں۔
انہوں نے اپنی یادوں کا خزانہ شیئر کرتے ہوئے مزید بتایا کہ فلم 'عشق لیلیٰ' کی شوٹنگ کے دوران انہیں آپنڈیس کا شدید درد اٹھا یہاں تک کہ ڈاکٹرز نے شوٹنگ میں حصہ لینے کو بھی صحت کے لیے رسک قرار دیا لیکن انہوں نے شدید درد اور تکلیف کے باوجود فلم کی شوٹنگ مکمل کرائی۔
فلمی دنیا سے ٹی وی اسکرین پر آمد کا سہرا وہ معین اختر کے سر باندھتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی اور اسٹیج پر انہیں معین اختر نے ہی دوبارہ کام کرنے کا موقع دلوایا تھا۔
کئی سالوں تک امریکہ میں رہنے کے باعث صبیحہ خانم کو امریکہ اپنا دوسرا وطن لگنے لگا تھا لیکن اس کے باوجود ان کا دل پاکستان میں ہی دھڑکتا تھا۔ اس بات کا اظہار انہوں نے اپنی زندگی میں کئی مرتبہ کیا تھا۔
ان کی موت پر سوشل میڈیا صارفین نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان میں پاکستان سینیٹ کی رکن شیری رحمٰن بھی شامل ہیں۔
سینیٹر اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے بھی صبیحہ خانم کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے:
ریڈیو پاکستان نے کی جانب سے بھی ایک ٹوئٹ کی گئی ہے جس میں لکھا ہے کہ صبیحہ خانم 1950 اور 1960 کی دہائی میں بننے والی فلموں پر راج کرتی تھیں۔ ان فلموں میں کنیز، مکھڑا، انوکھا اور تہذیب وغیرہ شامل ہیں۔
ایک صارف علی رحمٰن خان نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ہے۔
عبدالغفار نامی ایک صارف نے اپنی ٹوئٹ کے ساتھ ساتھ صبیحہ خانم اور سنتوش کمار کی کچھ تصویری بھی شیئر کی ہیں۔