پندرہ جون 2020 کو پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم کی ہیروئن کا آخری سفر نہایت سادگی سے صرف چند قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں امریکہ کی ریاست ورجینیا میں انجام پایا۔ صبیحہ خانم اپنے زمانے کی کامیاب ترین فلم اسٹار تھیں۔
لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ پاکستان سے امریکہ کیوں منتقل ہوئی تھیں اور یہاں اپنی زندگی کیسے گزار رہی تھیں۔
صبیحہ خانم کے شوہر سنتوش کمار کا انتقال 1982 میں ہوا تھا اور ان کی بیٹی فریحہ شہریار کے شوہر کا انتقال 1994 میں ہوا۔ اپنی داماد کے موت کے بعد 1994 سے 1999 تک صبیحہ خانم اپنی بیٹی کے ساتھ ہی پاکستان میں رہتی رہیں۔ اس عرصے کے دوران ان کے اکلوتے بیٹے احسن رضا امریکی ریاست ٹیکساس میں مقیم تھے۔
بعد ازاں صبیحہ اپنی بیٹی کے ہمراہ 1999 میں پاکستان سے امریکہ منتقل ہوگئیں۔ وہ گزشتہ 21 سال سے فریحہ اور اپنی تین نواسیوں مہوش، مہرین اور سحرش کے ساتھ ورجینیا میں مقیم تھیں۔ صبیحہ کی دوسری بیٹی عافیہ بھی ورجینیا میں ہی مقیم ہیں۔
صبیحہ خانم کی موت طبعی تھی۔ ان کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو تین ماہ سے وہ کمزوری محسوس کر رہی تھیں۔ ان کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ بھی کیا گیا تھا جو منفی آیا تھا۔
ان کی نمازِ جنازہ میں صرف خاندان کے ہی چند افراد نے شرکت کی۔ نمازِ جنازہ صبیحہ خانم کے ایک قریبی عزیز نے مقامی مسلم فیونرل ہوم میں پڑھائی۔ ان کی تدفین ورجینیا کے شہر اسٹرلنگ کے مقامی قبرستان میں کی گئی۔
میں بھی صبیحہ خانم کے جنازے اور تدفین میں شریک تھا جس کے بعد مجھے ان کی نواسی سحرش خان سے گفتگو اور بہت سی یادیں تازہ کرنے کا موقع ملا۔
میں صبیحہ خانم سے ان کی نواسی کے توسط سے ہی کئی سال قبل ملا تھا۔ ان کی نواسی سحرش سے میری شناسائی ان کے کالج کے دنوں سے ہے۔ میں وائس آف امریکہ میں انٹرن شپ کر رہا تھا اور سحرش خان ورجینیا کی 'جارج میسن یونیورسٹی' میں زیرِ تعلیم تھیں۔
میں پاکستانی امریکن طلبہ پر ایک رپورٹ کرنے یونیورسٹی پہنچا تو پتا چلا کہ سحرش خان پاکستانی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی صدر ہیں۔ اسی ملاقات میں انکشاف ہوا کہ وہ صبیحہ خانم کی نواسی بھی ہیں۔
نوے کی دہائی میں پاکستان میں اسکول جانے والے طلبہ کو صبیحہ خانم کا پتا نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس دور میں پرانی فلمیں اکثر ٹی وی پر دکھائی جاتی تھیں جن میں صبیحہ خانم کی کئی یادگار فلمیں بھی شامل تھیں۔ یہ بات میں نے سحرش کو بتائی اور موقع مناسب جانتے ہوئے صبیحہ خانم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کر دیا۔
کچھ دن بعد ہی میری صبیحہ خانم سے ملاقات بھی ہوگئی جس کے بعد کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی تقریب میں ان سے مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
سحرش خان خود بھی پاکستانی فلموں میں کام کرچکی ہیں۔ سحرش کو یاد ہے کہ جب ان کی نانی نے فلموں کو خیرباد کہا تو انھوں نے کچھ عرصے کے لیے پاکستانی ڈراموں میں بھی کام کیا۔
ان دنوں سحرش خان بہت چھوٹی ہوا کرتی تھیں اور اپنی نانی کے ساتھ اکثر سیٹس پر جایا کرتیں تھیں۔ یوں انہیں شوبز کی دنیا کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد سحرش خان کو پاکستانی فلموں میں کام کرنے کی آفر ہوئی تو انھوں نے اپنی نانی سے اجازت لے کر امین اقبال کی فلم 'رہبرا' میں کام کرنے کی ہامی بھرلی۔ اس فلم کے سلسلے میں جب وہ پاکستان گئیں تو انہیں سید نور کی فلم 'چین آئے نا' میں بھی کاسٹ کرلیا گیا۔
سید نور کی فلم تو تکمیل کے بعد 2017 میں ریلیز ہوگئی۔ لیکن ان کی پہلی فلم 'رہبرا' ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی ہے۔ اس کے کچھ سین شوٹ کرانے سحرش کو مارچ میں پاکستان جانا تھا لیکن کرونا وائرس کے باعث وہ یہ سفر نہیں کرسکیں۔
سحرش خان ایک وکیل بھی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ مزید پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں بھی کام کریں جیسا کہ ان کی نانی چاہتی تھیں۔ ان کے بقول ان کی نانی نے انھیں ہمیشہ کسی مقصد کے ساتھ زندگی جینے کا سبق دیا اور وہی کرنے کا کہا جو ہمارا دل چاہتا ہے۔
سحرش کہتی ہیں کہ بڑھتی عمر اور بیماری کے باوجود ان کی نانی ہمیشہ لوگوں کے درمیان رہنا پسند کرتی تھیں اور پاکستان و امریکہ میں اپنے چاہنے والوں سے ہمیشہ گرم جوشی سے ملتیں۔
سحرش نے بتایا کہ 2016 میں نیویارک میں جنوبی ایشیائی فلم فیسٹیول کے دوران سیکڑوں لوگوں نے صبیحہ خانم کو پہچان کر گھیر لیا اور ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ صبیحہ خانم نے ڈیڑھ گھنٹے تک وہاں کھڑے رہ کر سیکڑوں لوگوں کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور انھیں آٹو گراف دیے۔ سحرش کا کہنا ہے کہ ایک موقع پر تو میں خود تنگ آگئی تھی لیکن نانی نے کہا کہ کبھی کسی مداح کو منع نہیں کرنا، یہ ہیں تو ہم ہیں۔
چند سال پہلے تک صبیحہ خانم کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان جا کر ڈراموں میں کام کریں۔ لیکن پھر ان کی صحت نے اس کی اجازت نہ دی۔
کم لوگ جانتے ہیں کہ بڑھتی عمر کے باوجود صبیحہ خانم نے ایک متحرک اور فعال زندگی گزاری۔ اسی سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود وہ امریکہ میں ہونے والی پاکستانی کمیونٹی کی تقاریب میں شرکت کرتی رہیں جب کہ چند سال پہلے تک گاڑی بھی خود چلاتی تھیں۔ ورجینیا میں ہونے والے پاکستان کے جشنِ آزادی کے میلے میں وہ اکثر شرکت کرتی تھیں اور لوگوں کے ساتھ گھل مل کر تصاویر بھی بنواتیں۔
جب سحرش خان 2015 میں 'مس پاکستان یوایس اے' منتخب ہوئیں تو صبیحہ خانم نے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا۔ 2017 میں سحرش خان کی پہلی فلم 'چین آئے نا' کے پریمیئر کے موقع پر صبیحہ خانم کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی لیکن انھوں نے کئی گھنٹے لوگوں کے درمیان گزارے اور تھیٹر میں بیٹھ کر پوری فلم دیکھی۔
اس دن وہ رات دیر گئے تک مہمانوں کے ساتھ گپ شپ کرتی رہیں اور ہر کسی سے پوچھتیں رہیں "آپ نے کھانا کھایا؟ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟"
انہیں ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسی بیماریاں لاحق تھیں۔ لیکن 82 سال کی عمر میں بھی وہ خاصی متحرک رہیں یہاں تک کہ اکثر لوگوں کو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ وہ اتنی بیمار ہیں۔
میں نے گزشتہ چند برسوں میں کئی دفعہ ان سے ملاقات کی اور ہر ملاقات کی تصاویر بنائیں۔ وہ ہمیشہ تصاویر میں سب سے زیادہ خوش اور مطمئن دکھائی دیتی تھیں۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک ایسی مسکراہٹ رہتی تھی جو الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔
زیرِ نظر تصویر آج سے تین سال پہلے کی ہے جس میں وہ اپنے گھر پر مہمانوں کی تواضع میں مصروف تھیں۔ اس رات انھوں نے سب کے ساتھ مل کر گھر کے بنے دال چاول اور پالک کھایا اور مجھ سے بھی بار بار پوچھتی رہیں کہ "تم نے دال چاول کھائے؟ میری بیٹی نے بنائے ہیں۔ لیکن بتایا میں نے تھا کہ کیسے بنانے ہیں۔"
میں آج تک اس انتہائی دلکش اور اطمینان بخش مسکراہٹ کا راز نہیں جان سکا جو ان کے چہرے پر ہمیشہ رہتی تھی۔ شاید اس کی وجہ ایک انتہائی بھرپور اور خوبصورت زندگی تھی جو انھوں نے گزاری۔ یا شاید ان کی بیٹیوں اور نواسیوں کی محبت جو ان کے لیے زندگی بھر کا سرمایہ تھی۔ کیوں کہ ان کی تمام نواسیوں سے جب بھی میری صبیحہ خانم کے متعلق بات ہوئی تو ان کی بات اسی سے شروع ہوتی تھی اور اسی جملے پر ختم ہوتی تھی کہ "ہماری نانی دنیا کی سب سے اچھی نانی ہیں۔"