اسلام آباد ہائی کورٹ نے چند روز قبل اسلام آباد سے لاپتا ہونے والے سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے جوائنٹ ڈائریکٹر اور سابق صحافی ساجد گوندل کی عدم بازیابی پر انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے 10 روز کی مہلت دی ہے۔
پیر کو دورانِ سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے وزارتِ داخلہ کی کارکردگی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ وزیراعظم کو اس معاملے سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین مسنگ پرسن کمیشن نے اس کیس کا نوٹس لیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ انہیں کسی سرکاری اہلکار نے بتایا ہو گا کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے۔
کمرہ عدالت میں عدالتی حکم پر سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر، آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار، ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات اور ڈی آئی جی اسلام آباد وقار الدین سید عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد واحد علاقہ ہے جسے وفاقی حکومت دیکھتی ہے اس چھوٹے علاقے کے لیے چیف کمشنر اور آئی جی پولیس ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ لوگوں کو اندازہ ہے کہ اس عدالت میں لاپتا افراد کی کتنی درخواستیں دائر ہیں۔
سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ہم سب اپنا کام کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم سب اپنا کام نہیں کر رہے۔ افسوس ناک ہے کہ اسلام آباد میں یہ سب ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وزیر کا بیٹا لاپتا ہوا ہوتا تو انتظامیہ کا ردعمل مختلف ہوتا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکرٹری داخلہ کو آئین کا آرٹیکل چار بار آواز بلند پڑھنے کا حکم دیا جس میں شہریوں کے آئینی حقوق کا ذکر ہے۔
سیکرٹری داخلہ کی جانب سے آئین کا آرٹیکل پڑھنے کے بعد عدالت نے سوال کیا کہ سیکرٹری صاحب کیا آئین کی عمل داری ہو رہی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آج ایسے ہی ایک اور کیس میں وفاقی وزیر داخلہ کو طلب کیا گیا ہے، ایک اور کیس میں بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ ہر روز اس عدالت میں اس قسم کی درخواستیں آ جاتی ہیں۔
'سرکاری ادارے ہاؤسنگ سوسائٹیاں چلا رہے ہیں'
کمرہ عدالت میں مختلف سرکاری اداروں کی طرف سے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں شامل ہونے پر عدالت نے تنقید کی اور سیکرٹری داخلہ کو کہا کہ وزیراعظم کو بتائیں کہ اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ایف آئی اے اور پولیس رئیل اسٹیٹ کاروبار میں ملوث ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام میں زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں، وزارتِ داخلہ، ایف آئی اے اور اسلام آباد پولیس ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا رہے ہیں، اس 14 سو اسکوائر میل کے علاقے میں یہ سب ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں مافیا دندناتے پھرتے ہیں کوئی قانون نہیں۔ انہوں نے سیکرٹری داخلہ سے کہا کہ آپ کی وزارت کے آفیشل ہاؤسنگ سوسائٹی کی میٹنگ میں بیٹھے ہوتے ہیں، اور وہاں فیصلے کرتے ہیں، یہ افسران لوگوں کو کیا انصاف دلائیں گے۔
ساجد گوندل کیس مسنگ پرسن کمیشن میں
عدالت کو بتایا گیا کہ مسنگ پرسن کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ساجد گوندل کے اہل خانہ کو ملاقات کے لیے بلایا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا یہ کیس جبری گمشدگی کا ہے؟ جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ اس موقع پر کچھ کہا نہیں جا سکتا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جبری گمشدگی کمیشن کے چیئرمین نے پھر آج کیسے نوٹس لے لیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ان کو کسی نے بتایا کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے؟ کیا یہ طے ہو گیا ہے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے جو کمیشن نے نوٹس لیا؟
انہوں نے کہا کہ چیئرمین مسنگ پرسن کمیشن کا اختیار تو صرف جبری گمشدگی کا ہے۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اس بارے میں ہمیں نہیں معلوم کل شام ہی ان کا خط موصول ہوا ہے۔
ساجد گوندل کے اہل خانہ کیا کہتے ہیں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ساجد گوندل کی گمشدگی کی درخواست ان کی والدہ کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔ سماعت کے موقع پر ان کی والدہ، اہلیہ اور چاروں بچے عدالت میں موجود تھے۔
ساجد کی اہلیہ سجیلہ ساجد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ ساجد کا قصور کیا ہے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ ماضی میں ایس ای سی پی کے اندر گروہ بندی کے باعث ادارے کے ملازمین میں اختلافات تھے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس گروہ بندی کے باعث ان کے شوہر کو کسی معاملے میں ملوث کیا گیا ورنہ ساجد کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے بچے اس صورتِ حال سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، بچوں کو کہا ہے کہ ساجد سیر کرنے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ آج عدالت نے مزید 10 دن کا وقت دے دیا ہے۔ ان 10 دنوں میں ہم کیا کریں گے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ جس بھی ادارے نے ساجد کو اغوا کیا ہے وہ ان کی خیریت سے فوری آگاہ کرے۔
سجیلہ ساجد نے پولیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ پولیس اہلکار کچھ نہیں کر رہے۔ مختلف مقامات کی سی سی ٹی وی کی فوٹیجز ہم نے پولیس کو فراہم کی ہیں۔
انہوں نے ایس ای سی پی کے رویے پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ کوئی بھی افسر اب تک ہمارے گھر تک نہیں آیا۔
ساجد گوندل کب لاپتا ہوئے؟
ساجد گوندل ایس ای سی پی میں ملازمت سے قبل نجی نیوز چینل 'ڈان' سے وابستہ تھے اور ایک میگزین بھی نکالتے تھے۔ لیکن ایس ای سی پی میں ملازمت اختیار کرنے کے بعد انہوں نے یہ میگزین بند کر دیا تھا۔
حالیہ دنوں میں صحافی احمد نورانی کی طرف سے چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے خلاف خبر شائع ہونے کے بعد ساجد گوندل کے غائب ہونے پر قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ انہیں اس خبر میں احمد نورانی کی معاونت کرنے پر اغوا کیا گیا ہے۔ تاہم ان کی اہلیہ نے اس کی تردید کی ہے۔
ساجد گوندل تین ستمبر کی شام اپنی رہائش گاہ سے نکلے اور پھر واپس نہیں آئے۔ اگلے روز ان کی گاڑی پاکستان زرعی تحقیقاتی مرکز کے باہر کھڑی ہوئی ملی لیکن ساجد کا کچھ پتا نہ چل سکا۔
بعض حلقے ساجد کے اغوا کا ذمہ دار ریاستی اداروں کو ٹھیرا رہے ہیں تاہم پاکستان کی حکومت اس کی تردید کر رہی ہے۔
وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے ساجد کی بازیابی کے لیے پولیس کو فوری اقدامات کی ہدایت کی ہے جب کہ انسانی حقوق کی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے بھی اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔