پاکستان کی عدلت عظمٰی نے صوبہ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کی برسی کی تقریب پر حملے کے جرم میں سزا پانے والے پانچ مجرموں کی سزاؤں کے خلاف اپیل مسترد کر دی ہے۔ تاہم سزا میں سے دہشت گردی کی دفعات ختم کر دی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جسٹس منظور احمد ملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس سردار طارق محمود اور جسٹس قاضی محمد امین احمد شامل تھے۔
سپریم کورٹ کے بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے مجرموں کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کر دی، تاہم انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کا حکم دیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے پانچ مجرموں کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سنائی گئی 16 برس سے زیادہ قید کی سزا کو برقرار رکھا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
مجرموں نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سزا کے خلاف اپیل دائر کرتے ہوئے استدعا کی کہ ان کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیا جائے۔
اپیل کی سماعت کے دوران مجرموں کے وکیل نے کہا کہ سزا عدم ثبوت کی بنا دی گئی ہے اور وقوعہ کے حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزائیں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر سنائی ہیں اس لیے اپیل کو مسترد کر دیا جائے
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے دونوں اطراف کے دلائل سننے کے بعد مجرمان کی ساڑھے 16 سال قید کی سزائیں برقرار رکھیں تاہم سزا میں سے دہشت گردی کی دفعات کو ختم کر دیا۔
انسداد دہشت گردی لاہور کی خصوصی عدالت نے 27 جولائی 2015 کو جرم ثابت ہونے پر عدیل، فرقان، افتخار، وزیر علی اور کاشف منیر کو سزائیں سنائی تھیں۔ تمام افراد کو مختلف دفعات کے تحت مجموعی طور پر ہر ایک کو 16 سال اور چھ ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔
مجرموں پر الزام تھا کہ انھوں نے لاہور کے معروف کاروباری علاقے لبرٹی چوک میں مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی چوتھی برسی منانے والے افراد پر حملہ کیا تھا اور تقریب میں شریک افراد کو نقصان پہنچایا تھا۔ شرکاء کے ہاتھوں سے شمعیں اور پلے کارڈ چھین لیے تھے اور انہیں مارا پیٹا تھا۔
حملہ آوروں نے اس تقریب کی کوریج کرنے والے رپورٹروں اور کیمرہ مینوں پر بھی تشدد کیا۔ حملے کا مقدمہ سول سوسائٹی کے رکن عبداللہ ملک کی مدعیت میں تھانہ گلبرگ میں درج کیا گیا تھا۔ جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ اور فوجداری قوانین کی دفعات شامل کی گئی تھیں۔ پولیس نے 21 افراد کو حراست میں لیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عبداللہ ملک نے بتایا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں مجرمان پر دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے پر نظرثانی کی اپیل میں جائیں گے۔
“ہم سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد نظر ثانی کی اپیل دائر کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چونکہ مجرمان سے اسلحہ برآمد نہیں ہوا لہذٰا اُنہیں دہشت گردی کی دفعات کے تحت سزا نہیں دی جا سکتی”۔
مجرمان نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس عبدالسمیع خان اور جسٹس عباد الرحمان لودھی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے اکتوبر 2016 میں اپنے مختصر فیصلے میں مجرموں کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے اپیل مسترد کر دی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق خادم حسین رضوی کی جماعت تحریک لبیک پاکستان سے تھا۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مقتول گورنر سلمان تاثیر کی برسی کی تقریب پر حملہ کرنے والے مرکزی مجرم ممتاز سندھی کو بھی جنوری 2016 میں 16 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
ممتاز سندھی پر الزام تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ لبرٹی چوک میں مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی چوتھی برسی کی تقریب پر دھاوا بولا اور اس میں شریک افراد پر حملہ کیا اور انہیں زخمی کیا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ممتاز سندھی کے خلاف الزامات ثابت ہونے پر انھیں مختلف دفعات میں مجموعی طور پر ساڑھے 16 برس کی سزا سنائی تھی۔
عدالتی فیصلے پر وائس آف امریکہ نے سلمان تاثیر کے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم اُن سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کی سیکورٹی پر تعینات پولیس اہل کار ممتاز قادری نے 4 جنوری 2011 کو اسلام آباد کے پوش علاقے کوہسار مارکیٹ میں اپنی ڈیوٹی کے دوران فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔