پاکستان کے سینئر سیاست دان اور سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سردار مہتاب احمد خان کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی فیصلہ سازی اب نواز شریف کے ہاتھ میں نہیں رہی اسی وجہ سے سینئر رہنما اور پرانے کارکنان پارٹی سے دور ہو رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں مہتاب احمد خان نے کہا کہ ووٹ کو عزت دو نواز شریف کے دل کی آواز ہے۔ لیکن جماعت کی نئی قیادت انہیں سمجھوتا کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ان کے بقول وہ جس نواز شریف کو جانتے ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتا نہیں بلکہ مقتدرہ سے لڑنے والے نواز شریف ہیں جو سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو دیکھنا نہیں چاہتے۔
نواز شریف کے انتخابی مہم کے آغاز نہ کرنے کے سوال پر مسلم لیگ کے سینئر رہنما نے کہا کہ نواز شریف کو یقین ہے الیکشن کا نتیجہ ان کے حق میں آئے گا۔ اسی وجہ سے وہ انتخابی مہم چلانے میں سرگرم دیکھائی نہیں دیتے۔
پاکستان میں عام انتخابات میں لگ بھگ ایک ماہ کا وقت باقی ہے، تاہم مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز نہیں کیا۔
نومبر میں اپنی خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے پاکستان آنے پر نواز شریف نے لاہور میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا تاہم اس کے بعد سے وہ صرف پارٹی کے امور میں ہی سرگرم ہیں۔ اسی وجہ سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ الیکشن میں ایک ماہ کا وقت رہ جانے کے باوجود نواز شریف انتخابی مہم کا آغاز کیوں نہیں کر رہے۔
سردار مہتاب احمد خان نے کہا کہ اس وقت تو یہی سنائی دیتا ہے کہ آئندہ حکومت نواز شریف کی ہوگی۔ تاہم یہ باتیں اور ہوتی ہیں اور عملی سیاست کچھ اور ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کا آغاز ہونے کے باوجود کسی بھی جماعت کو انتخابی میدان میں اعتماد کے ساتھ اترتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔
ان کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں کو یقین ہے کہ الیکشن کا نتیجہ ان کے حق میں نکلے گا اور کچھ جماعتوں کو معلوم ہے کہ نتائج ان کے خلاف ہی جائیں گے۔
’مسلم لیگ کے قائد سے جو کرایا جارہا ہے وہ ان کی سوچ نہیں‘
سردار مہتاب احمد خان کہتے ہیں کہ وہ جس نواز شریف کو جانتے ہیں وہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو نہیں دیکھنا چاہتے۔ نواز شریف کا ایک کردار رہا ہے جس نے ہمیشہ مقتدرہ سے لڑائی کی ہے اور ہم انہیں اسی حیثیت میں جانتے ہیں۔ لیکن آج مسلم لیگ کے قائد سے جو کرایا جارہا ہے وہ ان کی سوچ نہیں ہے۔
کیا نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ترک کر دیا ہے؟ اس سوال پر سردار مہتاب خان نے کہا کہ وہ جب انتخابی عمل میں اتریں گے تو اس کا علم سب کو ہو جائے گا کہ وہ اپنے پرانے بیانیے پر قائم ہیں یا ترک کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا دل بہر حال ووٹ کو عزت دو کی بات ہی کرے گا۔ لیکن ان کی جماعت کے اندر پیدا ہونے والی نئی قوتیں انہیں سمجھوتے پر مجبور کر رہی ہیں۔
خیال رہے کہ نواز شریف نے 2018 کے انتخابات میں ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اپنایا تھا۔ تاہم حالیہ عرصے میں ناقدین تنقید کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنایا بیانیہ چھوڑ دیا ہے۔
’عمران خان کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کا موقع موجود نہیں‘
عمران خان اور نواز شریف کے انتخابات میں عملی طور پر حصہ لینے کے سوال پر سردار مہتاب احمد خان نے کہا کہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کا کوئی موقع موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ بھی بکھر گیا ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ عمران خان خود بھی الیکشن میں حصہ لینے کے حوالے سے کوئی عملی کردار ادا کرسکیں۔
نواز شریف کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد الیکشن کے لیے بلکل تیار ہوں گے اور ان کے راستے کی تمام رکاوٹیں بھی صاف کر دی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ نواز شریف سپریم کورٹ سے تا حیات نا اہلی جب کہ عمران خان سزا یافتہ ہونے کے سبب الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں۔ تاہم اس حوالے سے دونوں رہنماؤں کے مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔
سردار مہتاب احمد کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) پر نواز شریف کے خاندان کا عمل دخل بڑھ گیا ہے اور موجودہ جماعت ان پالیسیوں سے انحراف کر رہی ہے جو مسلم لیگ کا خاصہ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو عوامی امنگوں کے مطابق ملک گیر جماعت بنانے میں نواز شریف کا بہت کردار تھا جب پارٹی کی فیصلہ سازی ان کے ہاتھ میں تھی اور وہ دانش مندی سے ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کیا کرتے تھے۔
آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینا
سردار مہتاب کا کہنا تھا کہ ان ہی وجوہات کی بنا پر انہوں نے آئندہ الیکشن کے لیے مسلم لیگ (ن) سے حصہ لینے کی بجائے آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔
اس سوال کہ کیا ان کے خیال میں یہ سب مریم نواز کی وجہ سے ہے؟ کے جواب میں سردار مہتاب خان نے کہا کہ وہ کسی ایک فرد کا نام نہیں لینا چاہتے۔ لیکن جماعت کی سوچ و فکر میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ اب وہ سیاست رہی نہیں جو مسلم لیگ کرتی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ جماعت میں جو نئی سوچ بن رہی ہے اس میں سینئر قائدین کی گنجائش رہی نہیں۔ نئے لوگوں کی اپنی اہمیت ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پرانی شخصیات کو نظر انداز کر دیا جائے۔
سردار مہتاب احمد خان کا کہنا تھا کہ عوام میں سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے حوالے سے مایوسی پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خود کو آزاد امیدوار کے طور پر انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ ملک کو سنجیدہ سوچوں کی ضرورت ہے اور تجربہ رکھنے والے سیاستدانوں کو گھر بیٹھنے کے بجائے پارلیمنٹ میں آکر کردار ادا کرنا چاہیے۔
سیاسی جماعتوں کے کردار کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ماضی میں حکمرانی کرتی رہی ہے۔ ملکی حالات کی ذمہ داری دیگر شراکت داروں پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن اس کے بڑے ذمہ دار سیاستدانوں کو ہی ٹھہرانا ہوگا۔
نئی جماعت کے قیام پر الیکشن کے بعد غور
سردار مہتاب احمد خان نے کہا کہ نئی سیاسی جماعت کے قیام کے بارے میں سیاسی دوستوں سے مشاورت ہوئی لیکن انتخابات کے باعث وقت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اسے التواء میں ڈال دیا ہے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کے بعد نئی سیاسی جماعت کے قیام کے بارے میں مشاورت مکمل کی جائے گی اور سنجیدگی سے ایک ایسا پلیٹ فارم سامنے لایا جانے کی کوشش ہوگی جو صرف منشور نہ دے بلکہ ملکی مسائل کا حل کرسکے۔
سردار مہتاب نے کہا کہ موجودہ سیاسی نظام دیمک زدہ اور اس حد تک کھوکھلا ہوچکا ہے کہ یہ ملکی سماجی و معاشی مسائل کا حل نہیں کرسکتا ہے اور نہ ہی عوام سے اس کا ناطہ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت سیاست میں زیادہ تر وہ کردار ہیں جن کے چہروں کو ایک وقت میں سیاہ اور پھر دوسرے وقت میں سفید کرکے پیش کیا جاتا ہے اور اس عمل کے سبب سیاسی قیادت کا تشخص مجروح ہوا ہے۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر ملک کی سیاسی قیادت سمجھوتے کرنے پر رضا مند دیکھائی دیتی ہے۔
’الیکشن کے بعد مسلم لیگ کے لیے آسان صورتِ حال نہیں‘
سردار مہتاب احمد خان کہتے ہیں کہ موجودہ انتخابات کی مقامی و عالمی سطح پر ساکھ نہیں ہوگی کیوں کہ ان الیکشن کے نتائج پہلے ہی نظر آ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو برابری کا میدان مہیا نہیں ہے بلکہ ایک طرف جھکاؤ دیکھائی دیتا ہے۔
سردار مہتاب خان نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں کسی جماعت کو اتنی اکثریت حاصل نہیں ہوگی کہ وہ آزادی سے امور حکومت چلائیں اور درکار قانون سازی کرسکیں۔ ان کے بقول انتخابات کے بعد وہ مسلم لیگ ن کے لئے ایسی صورتحال نہیں دیکھتے کہ آسانی سے حکومت کرسکیں۔
سردار مہتاب خان نے کہا کہ آنے والی پارلیمنٹ اپنی مدت مکمل کرے گی یا نہیں یہ کہنا ابھی مشکل ہوگا لیکن عوام کی امنگوں کے برعکس وجود میں آنے والی پارلیمنٹ خطرے میں رہتی ہے۔
ان کے بقول "جب بھی ایسی پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے جو عوام کی رائے سے نہ نکلے تو اس کا وجود ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے اور مدت پوری کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
سردار مہتاب نے کہا کہ ملک کی بڑی جماعت کو اگر آزادی سے الیکشن میں حصہ لینے کا موقع نہیں دیا جاتا تو وہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرے گی جس کے الیکشن کی ساکھ پر سوالات کھڑے ہوں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں جب کہ ملک معاشی مشکلات کا شکار ہے عالمی سطح پر انتخابات کو تسلیم نہ کئے جانے کی صورت عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے مالیات کے حصول میں بھی مشکلات ہوسکتی ہیں۔
’مولانا فضل الرحمٰن کے خدشات درست لیکن الیکشن التوا کے حق میں نہیں‘
مولانا فصل الرحمٰن کی جانب سے امن و امان کے باعث انتخابات کو ملتوی کرنے کے مطالبے پر خیبر پختونخوا کے سابق وزیرِ اعلیٰ سردار مہتاب احمد خان کا کہنا تھا کہ ان کے صوبے اور بلوچستان میں امن و امن کی حالت مخدوش ہے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے تحفظات درست ہیں کہ موجودہ حالات میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں آزاد ماحول میں الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ خطرات صرف مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کو نہیں بلکہ دیگر جماعتوں کو بھی درپیش ہیں۔ ان کی انتخابی سرگرمیاں بھی سیکیورٹی کے خطرات کے متاثر ہوں گی۔ اب جب کہ انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔ تو وہ الیکشن کو ملتوی کرنے کی رائے کی حمایت نہیں کرتے بلکہ اس عمل کو ہو جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ دو صوبوں میں امن و امان کے باعث انتخابی ماحول نہیں ہے۔ لہٰذا الیکشن کو کچھ عرصے کے لیے ملتوی کیا جائے۔