۔سعودی عرب نے 1500 کے لگ بھگ پاکستانیوں کو غیر قانونی قرار دے کر ڈیپورٹیشن سینٹر منتقل کردیا تھا۔ تجزیہ کار ایک ہی وقت میں اتنی بڑی تعداد میں تارکین وطن کی واپسی کو پاک سعودیہ تعلقات میں پیدا شدہ سرد مہری کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان کی وزارت سمندر پار پاکستانیوں اور ہوا بازی نے ڈیپوٹیشن سینٹر میں محصور پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لئے منصوبہ بندی اور خصوصی پروازوں کا بندوبست کر رہی ہے۔
اسلام آباد میں متعین سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعد المالکی نے کہا ہے کہ پاکستان سے متعلق ویزہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
بدھ کو اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں قانون طور پر مقیم پاکستانیوں کو ملک بدر نہیں کیا جاتا، البتہ صرف ان لوگوں کو واپس بھیجنا جاتا ہے جن کے پاس دستاویزات نہ ہوں۔
سعودی عرب کی جانب سے پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنے کا یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان کے خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں پائی جاتی۔
اس سے قبل گذشتہ ماہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے پاکستان کے شہریوں پر سیاحتی ویزہ اور ورک پرمٹ کے اجرا پر پابندی عائد کر دی تھی۔
یمن پر سعودیہ، کشمیر پر پاکستان کو تحفظات ہیں
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یمن جنگ میں عدم شرکت سے اسلام آباد اور ریاض کے درمیان بڑھتے فاصلوں کا سلسلہ اب ناراضگی میں تبدیل ہو رہا ہے اور دونوں ملک اب نئے بلاک اور اتحاد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
خطے کے امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں سعودی عرب خطے کی سیاست میں بہت زور و شور کے ساتھ اپنے مفادات کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے، تاہم پاکستان ولی عہد محمد بن سلمان کی خلیج پالیسی میں خود کو مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں کر سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ یمن جنگ، سعودی عرب کی ایران پالیسی اور کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر دونوں ممالک کے درمیان فاصلے دکھائی دیتے ہیں۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں لاکھوں پاکستانی مقیم ہیں، جن کے ویزہ مسائل رہتے ہیں اور تعلقات میں فاصلے کے اس ماحول میں انہیں ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اس معاملے پر سعودی عرب سے صرف درخواست کر سکتا ہے کیونکہ ان ملک بدر کئے گئے افراد کا قیام غیر قانونی تھا۔
سعودی عرب میں غیر ملکی تارکین وطن کی مجموعی تعداد تقریباﹰ سوا کروڑ ہے جن میں سب سے زیادہ تعداد بھارتی باشندوں کی بتائی جاتی ہے جو کہ تقریباﹰ 15 لاکھ ہے۔
سعودی عرب میں دوسری سب سے بڑی قومیت پاکستانی شہریوں کی ہے، جن کی موجودہ تعداد کا تخمینہ 13 لاکھ سے زائد لگایا جاتا ہے۔
سابق سفارت کار عبدالباسط کہتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات خراب نہیں ہیں، البتہ دونوں طرف تحفظات پائے جاتے ہیں جو کہ یمن جنگ اور مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کی حمایت نہ ملنے کے باعث پیدا ہوئے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب ایک تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے اور پاکستانی ورکرز کے ویزہ ختم ہونے کے اقدام کو اسی تناظر میں لیا جانا چاہئے۔
عبدلباسط کہتے ہیں کہ پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ ایسے میں دیرینہ دوست سعودی عرب سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات نہ لے کہ ہمارے مسائل گھمبیر ہو جائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یمن جنگ کے باعث پیدا اختلاف کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں ایک اچھا آغاز ملا لیکن حکومت اسے برقرار نہ رکھ سکی۔
خیال رہے کہ سعودی عرب یمن جنگ میں پاکستان فوج کی براہ راست مداخلت چاہتا تھا تاہم اس وقت کی پارلیمنٹ نے حکومت کو غیر جانبدار رہنے پر مجبور کیا۔
مسئلہ کشمیر پر پاکستان سعودی عرب سے مایوس ہوا
خلیجی اتحادی ممالک پاکستان سے فاصلہ اختیار کر رہے ہیں تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بھارت کے ساتھ بڑھتے تعلقات کو بھی اسلام آباد میں ناپسندیدگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بھارت کے آرمی چیف ان دنوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر ہیں جو کہ کسی بھی بھارت فوج کے سربراہ کا پہلا دور خلیج ہے۔
پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان عالمی اور خطے کے امور میں پہلے جیسا اشتراک نہیں ہے جس کی وجہ اسلام آباد کی اصولی پالیسی ہے کہ وہ عرب ممالک کے آپس کے تنازعات میں فریق نہیں بنے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے یمن جنگ اور ایران کے ساتھ محاذا آرائی میں ساتھ نہ دینے پر سعودی عرب کے بھارت سے تعلقات میں بہتری کے رجحانات نظر آتے ہیں۔
حسن عسکری کہتے ہیں سعودی عرب کے حالیہ اقدامات کے باوجود پاکستان اپنی پالیسی میں تبدیلی نہیں لائے گا کیونکہ قطر کے معاملے پر پاکستان کا اقدام درست ثابت ہوا کیونکہ اب عرب ممالک دوحہ کا بائیکاٹ ختم کرنے جا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ایران کے معاملے پر اسلام آباد ریاض کا ایجنڈا لے کر نہیں چل سکتا اور کوئی سرحدی تنازعہ نہ ہونے کے باعث تہران سے تعلقات بگاڑنا بھی اسلام آباد کے مفاد میں نہیں ہے۔
یاد رہے کہ خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کی پاکستان نے حمایت نہیں کی تھی اور دوحہ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے تھے۔
سابق سفارت کار عبدلباسط کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو سعودی عرب سے مایوسی ہوئی اور اب اسلام آباد یہ توقع رکھتا ہے کہ بھارت کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات ہماری قیمت پر نہیں ہونے چاہئیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال بھارت کی جانب سے کشمیر کی خودمختاری حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستان سعودی عرب سے او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے پر اصرار کرتا رہا ہے تاہم ریاض نے اسلام آباد کے مطالبے کو صرفِ نظر کیا ہوا ہے۔
سابق سینئر سفارت کار کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کا کوالالمپور سمٹ کی دعوت قبول کرنا جلد بازی کا اقدام تھا، جس نے غلط فہمیوں کو ہوا دی۔ جب کہ سیاسی قیادت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے تعلقات میں دوریاں پیدا کر دیں۔
عبدلباسط کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں پاکستان نہ تو نئی صف بندی کر رہا ہے نہ ہی موجودہ حالات میں کوئی نیا اسلامی بلاک بننے جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستانی قیادت عوامی سطح پر بیانات سے گریز کرے تو تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی پیدا کی جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال کوالالمپور میں ہونے والی سربراہی کانفرنس کو سعودی عرب نے او آئی سی کے متبادل اسلامی بلاک کے طور پر دیکھا تھا اور ترک صدر کے بقول پاکستان سے اس میں شرکت نہ کرنے کے لئے سعودی عرب کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا۔ سعودی عرب نے ترک صدر کے اس بیان کے تردید کی تھی۔
سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کے باعث پاکستان کو سفارتی ہی نہیں معاشی مشکلات کا بھی سامنا ہے اور اگست میں اسلام آباد کو ریاض کے مطالبے پر ادھار حاصل کئے گئے ایک ارب ڈالر واپس ادا کرنا پڑے۔
مالی مشکلات کے شکار پاکستان نے یہ رقم چین سے حاصل کر کے سعودی عرب کو ادا کی۔
یہی نہیں سعودی عرب نے ادھار تیل کے معاہدے کو بھی موخر کر رکھا ہے۔
سعودی عرب نے 2018 کے آخر میں پاکستان کو 6 ارب 20 کروڑ ڈالرز کا مالی پیکیج دیا تھا، جس میں 3 ارب ڈالرز کی نقد امداد اور 3 ارب 20 کروڑ ڈالرز کی سالانہ تیل و گیس کی مؤخر ادائیگیاں شامل تھیں۔
یہ معاہدہ تین سال تک قابلِ توسیع تھا تاہم اگست میں سعودی عرب نے فراہم کردہ تین ارب ڈالرز میں سے ایک ارب ڈالرز کی واپسی کا تقاضا کر دیا تھا۔
سعودی عرب نے پاکستان سے بقیہ دو ارب ڈالرز کی قرض ادائیگی کا تقاضا بھی کر رکھا ہے جو رواں ماہ ادا کئے جانا ہیں۔ جب کہ آئندہ سال کے آغاز پر متحدہ عرب امارات کو بھی دو ارب ڈالرز ادا کئے جانا ہیں۔
گزشتہ ماہ وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے مشرق وسطیٰ امور طاہر محمود اشرفی نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں تصدیق کی تھی کہ پاکستان کو سعودی عرب کو دسمبر میں دو ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنا ہے جس پر دوست ملک کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے۔