سعودی عرب میں دہشت گردی اور ’گمراہ کن عقائد‘ کے الزامات میں 81 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔ سزا پانے والوں میں یمن کے سات اور شام کا ایک شہری بھی شامل تھے۔
سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی ‘ایس پی اے’ نے وزارتِ داخلہ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ افراد متعدد جرائم میں ملوث تھے جن میں بے گناہ عورتوں اور بچوں کے قتل سمیت دیگر جرائم شامل تھے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل سال 2021 میں 67 افراد کو جب کہ 2020 میں 27 افراد کی سزائے موت پر عمل در آمد کیا گیا تھا۔
وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق ان افراد کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں جیسے داعش، القاعدہ اور حوثیوں سے وفا داری کا عہد کرنے کے جرائم میں پھانسی دی گئی۔
ان افراد میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ان افراد میں وہ 37 سعودی بھی شامل تھے جنہیں سیکیورٹی اہل کاروں کے قتل، پولیس اسٹیشنز اور سیکیورٹی کے قافلوں کو نشانہ بنانے کے الزامات میں سزائے موت دی گئی۔
خیال رہے کہ 2018 میں ترکی میں سعودی عرب میں قونصل خانے میں صحافی جمال خشوگی کے قتل کے بعد انسانی حقوق کے گروپس اور مغربی اتحادیوں کی جانب سے سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈز پر نگرانی میں اضافہ ہوا ہے۔
سعودی عرب کو سیاسی اور مذہبی عقائد پر تنقید سے متعلق سخت قوانین لاگو کیے جانے پر شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔
علاوہ ازیں ان افراد کو پھانسی دیے جانے پر بھی سعودی عرب کا تنقید کا سامنا رہا ہے جن کی عمر جرم کے وقت اٹھارہ سال سے کم تھی۔
تاہم سعودی عرب انسانی حقوق کے علم برداروں کے الزامات کو رد کرتا رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے قوانین کے مطابق قومی سیکیورٹی کا تحفظ کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملزمان کو سعودی قوانین کے مطابق عدالتی عمل کے دوران وکیل کی خدمات بھی فراہم کی گئیں۔
اس خبر میں مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔