سعودی عرب کی خواتین کے لیے اتوار کے دن کا سورج تاریخی اہمیت لے کر ابھرا ہے۔ انہوں نے پہلی مرتبہ سڑکوں پر بغیر روک ٹوک کے خود گاڑی چلائی۔
سعودی شہر جدہ میں مقیم سینئر صحافی شاہد نعیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ جیسے ہی ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب شروع ہوئی مختلف علاقوں میں متعدد خواتین نہ صرف سڑکوں اور گلیوں میں جشن منانے کے سے انداز میں گاڑیاں لے آئیں بلکہ انہوں نے گاڑیوں میں لگے ووفرز پر تیز آواز میں مقامی زبان کے گیت بھی چلائے اور گنگنائے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی خواتین نے ہفتے کی شب بارہ بجتے ہی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑانا شروع کردیں۔
گاڑی چلانے والوں میں میں سعودی شہزادی ریم بن طلال بھی شامل ہیں جنہوں نے ریاض میں اپنے والد اور بچیوں کو بٹھاکر خود گاڑی ڈرائیو کی۔ شہزادہ طلال نے اس موقع پر ڈرائیونگ کرتی اپنی بیٹی کی تصاویر بھی جاری کی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق سعود عرب کے فیشن ڈیزائنرز نے ڈرائیونگ کرنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے جدید تراش خراش کے لباس بھی تیار کیے ہیں۔
ڈیزائنرز کا کہنا ہے کہ اس انقلابی مرحلے پر نیا لباس خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرے گا۔
تاہم حکومت نے دورانِ ڈرائیونگ خواتین کی تصاویر اتارنے پر پابندی لگا دی ہے جس کی خلاف ورزی کی صورت میں پانچ سال قید اور ایک لاکھ سے تین لاکھ ریال جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔
سعودی ماہرینِ معاشیات نے امکان ظاہر کیا ہے کہ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے سے 20 ارب ریال کی بچت ہوگی۔
ایک سعودی اخبار کے مطابق مملکت میں غیر ملکی ڈرائیورز کی تعداد 13 لاکھ سے بھی زائد ہے۔ یہ افراد سعودی خاندانوں کے یہاں سالہا سال سے ملازمت کر رہے تھے۔ تاہم اب ان کی تنخواہوں کی مد میں خرچ ہونے والی خطیر رقم کی بچت ہوگی جس کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔
ادھر ایک آن لائن ٹیکسی کمپنی 'کریم' کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ اس نے بطور ڈرائیور ایک ہزار سعودی خواتین کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ 'کریم' کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کے بعد وہ مستقبل میں اپنا کاروبار بہت وسیع ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ ایک ہزار خواتین ڈرائیورز کی خدمات تو بس ایک شروعات ہے اور امید ہے کہ اگلے ایک سال میں ایک لاکھ سعودی خواتین ڈرائیونگ کی فیلڈ میں ہوں گی۔
ترجمان کے مطابق ان کی کمپنی نے سعودی خواتین کے لیے ڈرائیونگ کی تربیت کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔