سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی جمال خشوگی کے قتل کو انتہائی ’’سفاک‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ خشوگی کی موت اور گمشدگی کے بعد سے اُن کا پہلا بیان ہے۔
سعودی عرب نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ خشوگی 2 اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ہلاک کر دئے گئے تھے۔ اس کیس کے حوالے سے 18 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن میں سے ایک شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ولی عہد کے بہت قریب ہے۔
سعودی عرب نے ریاض میں ہونے والی بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی کانفرنس میں متحدہ مؤقف اپنایا ہے۔ تاہم، بہت سے مغربی بینکوں، کمپنیوں اور میڈیا نے خشوگی کی موت کے باعث اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ امریکی وزیرخزانہ سٹیون نوچن نے بھی اس کانفرنس میں شرکت سے گریز کیا۔ تاہم، اُنہوں نے پیر کے روز سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔
سعودی ولی عہد نے بدھ کے روز پہلی مرتبہ خشوگی کی ہلاکت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’سب سے پہلے تو یہ ہونے والا حادثہ سعودی عرب کے تمام لوگوں کیلئے تکلیف دہ تھا خاص طور پر اس لئے کہ میں بھی سعودی شہری ہوں۔ میرا خیال ہے کہ یہ دنیا میں ہر کسی کیلئے اتنا ہی تکلیف دہ تھا۔ یہ ایک ’سفاک‘ اقدام تھا جس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
سعودی ولی عہد نے مزید کہا کہ اس واقعے کے حوالے سے سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ خلیج پیدا نہیں ہو گی اور ہم دنیا کو یہ ثابت کر دیں گے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اس واقعے کے ذمہ دار افراد کو سزا دینے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گی اور آخر میں انصاف کا بول بالا ہو گا۔
امریکی انتظامیہ نے اس کیس میں ملوث سعودی ایجنٹس کے ویزے منسوخ کر دئے ہیں۔ تاہم، امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ کوئی بھی تجارتی معاہدہ منسوخ نہیں کیا ہے جن میں ہتھیاروں کی فروخت کا معاہدہ بھی خاص طور پر شامل ہے۔ برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے پر سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت کا معاہدہ منسوخ نہ کرنے پر برطانوی پارلیمان میں بدھ کے روز شدید تنقید کی گئی۔ سکاٹش نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے برطانوی پارلیمان کے رکن آئن بلیک فورڈ کا کہنا تھا کہ ’’وزیر اعظم کو جرم کا اس سے زیادہ کیا ثبوت کیا چاہئیے کہ وہ سعودی عرب کی ظالمانہ حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت منسوخ کر سکیں‘‘۔
سعودی عرب کو یمن میں اُس کی کارروائیوں کیلئے ہتھیاروں کی ضرورت ہے جہاں وہ ایران نواز حوتی باغیوں کے خلاف لڑائی میں حکومت کی مدد کر رہا ہے۔ اس جنگ اور تشدد سے یمن کے عام شہریوں پر شدید اثرات پڑے ہیں۔ تاہم، بیلجیم میں فلیمش پیس انسٹی ٹیوٹ میں ہتھیاروں کی فروخت کے ایک ماہر ڈائی ڈیرک کوپس کہتے ہیں کہ خشوگی کی موت کے بعد ہی سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’’یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کسی طور سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کے سلسلے میں کسی عالمی اقدام کی شروعات ثابت ہو گا، کیونکہ بہت سے ملک جیو پولیٹکل اور اقتصادی وجوہات کی بنا پر سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے سے قاصر ہیں‘‘۔
امریکی صدر ٹرمپ کا استدلال ہے کہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت سے ہزاروں امریکیوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور سعودی عرب ایران کے خلاف امریکہ کا ایک مضبوط اتحادی ہے۔