سعودی عرب نے کہا ہے کہ ترکی کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق استنبول کے قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خشوگی کو ایک ’’سوچے سمجھے منصوبے‘‘ کے تحت ہلاک کیا گیا۔
یہ بیان سعودی پبلک پراسیکیوٹر نے دیا ہے جس حوالے سے یہ خبر ’سعودی پریس ایجنسی‘ نے جاری کی ہے۔
ابتدائی طور پر سعودی اہلکاروں نے بتایا تھا کہ خشوگی قونصل خانے سے باہر چلے گئے تھے، جن کے بارے میں وہ مزید نہیں جانتے۔ پھر اُنھوں نے کہا کہ وہ قونصل خانے کے اندر ہونے والی ’’ہاتھاپائی‘‘ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ حالیہ دنوں کے دوران سعودی حکام نے بتایا کہ خشوگی گلا گھٹنے کی وجہ سے فوت ہوئے، جب مدد کی تلاش میں اُنھوں نے قونصل خانے سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔
اطلاعات کے مطابق، امریکی ’سی آئی اے‘ کی سربراہ، جینا ہاسپل نے، جو سعودی صحافی جمال خشوگی کی ہلاکت کی تفتیش کی غرض سے ترکی گئی ہوئی تھیں، اُن کو دی جانے والی اذیت اور ہلاکت سے متعلق آڈیو سن چکی ہیں۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ نے آڈیو ریکارڈنگ سے مانوس ایک شخص کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس سے کھل کر حقیقت سامنے آتی ہے اور جس بات سے امریکہ پر دباؤ بڑھ جاتا ہے کہ خشوگی کی ہلاکت کے بارے میں سعودی عرب کو احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے، جو روزنامے کے کالم نویس تھے۔
اس معاملے پر ہاسپل جمعرات کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو بریفنگ دیں گی۔
ٹرمپ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ سعودی عرب کو ایک اہم اتحادی اور امریکی ٹینکوں، بموں اور طیاروں کے اہم خریدار گردانتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ خشوگی کی موت میں ولی عہد محمد بن سلمان کے کردار کے بارے میں اُن کے شک میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹرمپ نے ’دی وال اسٹریٹ جرنل‘ کو بتایا کہ ’’ہاں۔ اس مرحلے پر ولی عہد وہاں اختیارات کے مالک ہیں۔ وہ انتظام چلا رہے ہیں، اس لیے اگر کسی پر شک جاتا ہے تو وہی ہوسکتے ہیں‘‘۔