سعودی عرب کی حکومت کے ایک وزیر اتوار کی شب پاکستان پہنچے ہیں جہاں امکان ہے کہ وہ یمن میں جاری بحران میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر حکومتی ذمہ داران کے ساتھ بات چیت کریں گے۔
اتوار کی شام اسلام آباد پہنچنے کے بعد ہوائی اڈے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیربرائے مذہبی امور صالح بن عبدالعزیز بن محمد الشیخ نے کہا کہ پاکستانی پارلیمان کی جانب سے یمن سے متعلق منظور کی جانے والی قرارداد پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے جس پر وہ تبصرہ نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہیں اور سعودی عرب کو ان تعلقات سے "خیر برآمد ہونے کی توقع "ہے۔
سعودی وزیر نے کہا کہ پاکستان مسلم امہ کا ایک بڑا اور اہم ملک ہے اور سعودی عرب پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔
اس سے قبل ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے بھی گزشتہ ہفتے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے پاکستان کی قیادت پر زور دیا تھا کہ وہ یمن میں جاری لڑائی میں شرکت کے لیے اپنے فوجی دستے بھیجنے کے بجائے وہاں قیامِ امن کے لیے مذاکرات کی حمایت کرے۔
سعودی وزیر کی آمد سے صرف دو روز قبل پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے کئی روز تک جاری رہنے والے اپنے مشترکہ اجلاس کے بعد یمن کے بحران میں پاکستانی فوج کی شرکت کا امکان مسترد کردیا تھا۔
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے پارلیمان کو بتایا تھا کہ سعودی عرب نے یمن میں جاری حوثی باغیوں کے خلاف عرب ملکوں کی کارروائی کے لیے پاکستان سے زمینی، بحری اور فضائی مدد طلب کی ہے۔
لیکن کئی روز کی بحث کے بعد پارلیمان کے مشترکہ اجلاس نے جمعے کو ایک قرارداد کے ذریعے سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے فوجی اتحاد میں پاکستان کی شرکت کی تجویز مسترد کردی تھی اور پاکستانی حکومت کو یمن میں جاری بحران کے فریقین کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے کا کہا تھا۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ سعودی وزیر کی پاکستان آمد کا مقصد پاکستان کی سیاسی قیادت کے ساتھ یمن کے بحران اور اس کے حل کے لیے پاکستان کے ممکنہ کردار پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق سعودی وزیر کے اسلام آباد میں قیام کے دوران ہونے والی ملاقاتوں کی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں لیکن اسلام آباد میں دفترِ خارجہ کے ایک اہلکار نے ایجنسی کو بتایا ہے کہ سعودی وزیر منگل کو وطن واپس روانہ ہوں گے۔