سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نےخبر دی ہے کہ سلطنت کی فٹ بال کی ایک ٹیم نے ایران کے نقش جہان اسٹیڈیم میں ایک میچ میں کھیلنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ وہاں ایک جانب ایک مقتول ایرانی جنرل کے مجسمے رکھے تھے۔
سعودی اتحاد کلب کو پروگرام کے مطابق ایشین چیمپئنز لیگ میں ایران کے سیفحان کےساتھ کھیلنا تھا ۔ یہ ان متعدد میچوں میں سےایک تھا جنہیں مشرقِ وسطیٰ کے ان پرانے حریفوں کے درمیان حال ہی میں کشیدہ ہونے والےتعلقات کو ممکنہ طور پر سفارتی طریقے سے بحالی کےلیے ترتیب دیا گیا تھا ۔
سعودی عرب کے الاخباریہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سعودی ٹیم نے میدان میں جانےسےاس لیے انکار کیا تھا کیوں کہ وہاں جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے رکھے گئے تھے جو جنوری 2020 میں پڑوسی ملک عراق میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے سے قبل ایران کی ا یلیٹ قدس فورس کے کمانڈر تھے۔
سلیمانی کو یمن میں ہوثی باغیوں کے جنگجوؤں سمیت خطے بھر میں مسلح گروپس کو ہتھیاروں کی فراہمی ، تربیت اور قیادت میں ایک اہم کردار ادا کرنےوالا عہدے دار سمجھا جاتا تھا۔ سعودی عرب 2015 سے یمن میں ایران سے منسلک باغیوں کے ساتھ جنگ کرتا رہا ہے ۔
میچ میں 30 منٹ کی تاخیر کے بعد سعودی عرب کی چیمپئن ٹیم نقش جہاں اسٹیڈیم سے رخصت ہو گئی جہاں لگ بھگ 60 ہزار شائقین منتطر تھے۔
سوشل میڈیا میں گردش کرنےوالی ویڈیو ز میں برہم ایرانی پرستار یہ نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دیے کہ سیاست کو فٹ بال سے باہر رکھا جائے ۔ ایرانی میڈیا نے خبر دی کہ سلیمانی کے مجسمے نقش جہان اسٹیڈیم میں تین سال قبل رکھے گئے تھے اور یہ کہ الاتحاد نے اتوار کو اسٹیڈیم میں پریکٹس کی تھی۔
الاخباریہ نے بعد میں اصفحان ایئر پورٹ پر سعودی ٹیم کی فوٹیج دکھائی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ وطن واپس جا رہے ہیں۔
لیگ نے کسی وضاحت کے بغیر کہا کہ گروپ سی میچ کو غیر متوقع حالات کی وجہ سے منسوخ کیا گیا تھا ۔
ایشین فٹ بال کنفیڈریشن ، اے ایف سی نے کھلاڑیوں ، میچ کے عہدے داروں، تماشائیوں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی سلامتی اور سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ۔ ایک بیان میں اس نے کہا کہ اس معاملے کو اب متعلقہ کمیٹیوں کو بھیجا جائے گا۔
سعودی عرب یا ایران نے اس بارے میں سرکاری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
ایران کے حکمران علماء اور ان کےحامی سلیمانی کو امریکہ ، اسلامک اسٹیٹ گروپ اور دوسرے سمجھے گئے دشمنوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں ان کے قائدانہ کردار کی وجہ سے انہیں ایک ہیرو کے طور پر سراہتے ہیں۔ ایران نے سلیمانی کی ہلاکت کے بعد عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل داغنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا اور ان کی موت کا بدلہ لینے کےلیے مزید کارروائیو ں کا عزم ظاہر کیا تھا۔
سلیمانی یمن میں شورش پسندوں کے ساتھ ساتھ عراق میں شیعہ عسکریت پسندوں، لبنانی حزب اللہ اور شام اور فلسطینی علاقوں میں جنگجوؤں کی بھی مدد کرتے تھے ۔
مغربی ملک سلیمانی کو خطے بھر میں عدم استحکام کے بیج بونے والا ایک دہشت گرد سمجھتے تھے ۔
ایشین فٹبال چیمپئنز لیگ ٹورنامنٹ جس میں ایشیا بھر کی 40 ٹیمیں حصہ لیتی ہیں ، 2015 کے بعد سے پہلا ٹورنامنٹ ہے جس میں سعودی عرب اور ایرانی ٹیمیں اپنے اپنے ملکوں اور ایک دوسرے کی سرزمین پر کھیل رہی ہیں۔ تہران اور ریاض کے درمیان 2016 میں تعلقات ٹوٹ جانے کے بعد یہ مقابلے عام طور پر غیر جانبدار مقامات پر منعقد کیے گئے ۔
ایرانی شائقین، کرسٹیانو رونالڈو اور فٹ بال کے دوسرے اسٹارز کی آمد پر بہت خوش تھے جنہیں سعودی کلبز میں گزشتہ سال بہت شاہانہ کانٹریکٹس کے ساتھ راغب کیا گیا تھا۔
ان دونوں ملکوں نے جو طویل عرصے تک خطے کے تنازعات میں مخالف فریقوں کی حمایت کرتے رہے ہیں، اس سال چین کی ثالثی میں طے ہونے والے ایک معاہدے کے تحت سفارتی تعلقات بحال کیے ہیں ۔
دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ واقعہ سعودی عرب اور ایرا ن کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کےعمل پر کسی طور اثر انداز ہو سکتا ہے۔آپ کیا کہتے ہیں کمنٹ باکس میں لکھیے۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)
فورم