پاکستان کرکٹ ٹیم عالمی مقابلے میں شرکت کے لیے بھارت کے شہر حیدر آباد پہنچ گئی ہے جہاں ٹیم جمعرات کو آرام کے بعد جمعے کو نیوزی لینڈ کے خلاف پہلا وارم اپ میچ کھیلے گی۔
پاکستانی اسکواڈ میں نہ تو تجربے کی کمی ہے، نہ صلاحیت کی لیکن موجودہ کھلاڑیوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس نے بھارت میں اس سے پہلے انٹرنیشنل میچ کھیلا ہو۔
یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایسے کھلاڑیوں کے ساتھ بھارت کا دورہ کیا جنہوں نے بھارتی سرزمین پر کوئی میچ نہ کھیلا ہو۔ سن 1979 میں آصف اقبال کی قیادت میں تقریباً دو دہائیوں بعد بھارت جانے والی پاکستانی ٹیم میں بھی کوئی ایسا کھلاڑی نہیں تھا جسے بھارتی گراؤنڈز پر ان کے کراؤڈ کے سامنے انٹرنیشنل میچ کھیلنے کا تجربہ ہو۔
بھارت کی میزبانی میں پانچ اکتوبر سے شروع ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ سے قبل پاکستان اپنا دوسرا وارم اپ میچ آسٹریلیا کے خلاف تین اکتوبر کو کھیلے گا۔
عالمی مقابلے میں پاکستان کے شیڈول پر نظر ڈالتے ہیں اور اس کے بعد ان وینیوز کی بات کرتے ہیں جہاں ماضی میں کئی پاکستانی کھلاڑیوں نے ناقابلِ فراموش کارکردگی دکھا کر بھارتی سر زمین پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔
ڈیڑھ ماہ میں پانچ گراؤنڈز پر نو میچز
پاکستان ٹیم اپنے دونوں وارم اپ میچز حیدر آباد دکن میں کھیلے گی۔ گرین شرٹس ورلڈ کپ میں اپنا پہلا میچ حیدرآباد کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں نیدرلینڈز کے خلاف چھ اکتوبر کو کھیلے گی جس کے بعد دس اکتوبر کو اسی گراؤنڈ پر اگلے میچ میں سری لنکا کا سامنا کرے گی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اہم میچ گجرات کے شہر احمد آباد میں 14 اکتوبر کو کھیلا جائے گا جہاں دنیا کا سب سے بڑا اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا ہے، اور جسے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
چھ دن کے وقفے کے بعد پاکستان ٹیم بنگلورو جائے گی جہاں 20 اکتوبرکو اس کا سامنا آسٹریلیا سے ہوگا۔ اسی مقام پر چار نومبر کو پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔
ان دونوں میچوں کے درمیان پاکستان ٹیم چنئی میں 23 اکتوبر کو افغانستان اور 27 اکتوبر کو جنوبی افریقہ کے مدمقابل ہوگی، جب کہ 31 اکتوبر کو کولکتہ میں بنگلہ دیش اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کا ٹکراؤ ہوگا۔
پاکستان کرکٹ ٹیم لیگ اسٹیج میں اپنا آخری میچ بھی کولکتہ میں ہی کھیلے گی ۔ گیارہ اکتوبر کو دفاعی چیمپئن انگلینڈ کے خلاف جس کے بعد اگر گرین شرٹس نے دس میں سے ٹاپ چار ٹیموں میں جگہ بنالی تو وہ ممبئی یا کولکتہ میں شیڈول سیمی فائنل میں جگہ بنالے گی، ورنہ ٹیم کا سفر میگا ایونٹ میں ختم ہوجائے گا۔
ورلڈ کپ کا فائنل 19 نومبر کو احمد آباد میں دونوں سیمی فائنل جیتنے والی ٹیموں کے درمیان کھیلا جائے گا ۔
کولکتہ میں پاکستان کا ٹریک ریکارڈ سب سے اچھا
پاکستان کرکٹ ٹیم نے مجموعی طور پر 1952 سے لے کر 2016 کے درمیان بھارت کا متعدد مرتبہ دورہ کیا، کبھی صرف ٹیسٹ میچ کھیلنے، کبھی ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے تو کبھی کسی میگا ایونٹ میں شرکت کرنے کے لیے، لیکن یہ کرکٹ روابط کئی بار تعطل کا شکار ہوئے۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پاکستان نے بھارت کا صرف ایک ایک مرتبہ دورہ کیا، جب کہ اسی اور نوے کی دہائی میں گرین شرٹس نے بھارت جاکر نہ صرف ٹیسٹ سیریز کھیلیں بلکہ ون ڈے ایونٹس میں بھی شرکت کی۔
سن 1989 میں بھارت میں کھیلا جانے والا نہرو کپ ہو، یا 1997 میں کھیلا جانے والا آزادی کپ۔ پاکستان نے اگر بھارت میں ایونٹ نہیں جیتا تو ورلڈ ریکارڈ ضرور بنائے اور وہ بھی انہی گراؤنڈز میں جہاں اس وقت پاکستان ٹیم میگا ایونٹ کے میچز کھیلے گی۔
پاکستان ٹیم کا سب سے اچھا ریکارڈ کولکتہ میں رہا ہے جہاں اس نے چار ایسے میچز جیتے جن کا شمار پاکستان کی یادگار ترین فتوحات میں ہوتا ہے۔
سن 1987 میں کولکتہ ہی کے مقام پر پاکستانی بلے باز سلیم ملک نے بھارتی بالرز کے خلاف جارحانہ کھیل پیش کرکے پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔چالیس چالیس اوورز کے اس میچ میں بھارت نے پاکستان کو جیت کے لیے 239 رنز کا ہدف دیا تھا جس کے جواب میں پاکستان کے 6 کھلاڑی 174 رنز بناکر واپس پویلین لوٹ گئے تھے۔
ایسے میں نمبر سات پر بیٹنگ کے لیے آنے والے سلیم ملک نے صرف 36 گیندوں پر 72 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر پاکستان کو دو وکٹ سے فتح دلائی۔ ان کی اننگز میں 11 چوکے اور ایک چھکا شامل تھا اور جس وقت انہوں نے یہ کارکردگی دکھائی، بھارتی ٹیم ورلڈ چیمپئن تھی۔
اسی طرح بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کی پیدائش کی 100 سالہ تقریبات کے سلسلے میں 1989 میں بھارت میں نہرو کپ کھیلا گیا جس کا فائنل پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان، کولکتہ میں کھیلا گیا۔
اس میچ میں ویسٹ انڈیز سے جس نے اوپنر ڈیسمنڈ ہینز کے ناقابلِ شکست 107 رنز کی بدولت 5 وکٹ پر 273 رنز بنائے تھے۔
پاکستان نے 274 رنز کا ہدف میچ کے آخری اوور کی پانچویں گیند پر حاصل کیاتھا۔ میچ کی خاص بات عمران خان کی نا قابلِ شکست نصف سنچری اور تین وکٹیں تھیں۔
میچ کے آخری اوور میں جب پاکستان کو فتح کے لیے دو گیندوں پر تین رنز درکار تھے، وسیم اکرم نے سر ویوین رچرڈز کی گیند پر چھکا مار کر پاکستان کو میچ جتوا دیا۔
یہی نہیں، اس گراؤنڈ پر 1999 میں پاکستان نے پہلی ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ کا میچ بھی بھارت کے خلاف جیتا جس میں فاسٹ بالر شعیب اختر نے مسلسل دو گیندوں پر راہول ڈریوڈ اور سچن ٹنڈولکر کو بولڈ کیا۔
سن 2004 میں ایڈن گارڈنز میں ہی سلمان بٹ نے ناقابل شکست سینچری اسکور کر کے پاکستان کو ون ڈے انٹرنینشل میچ میں چھ وکٹ کی یادگار فتح سے بھی ہمکنار کیا تھا۔
293 رنز کے تعاقب میں سلمان بٹ نے 130 گیندوں کا سامنا کرکے 13 چوکوں کی مدد سے 108 رنز بنائے تھے اور آؤٹ بھی نہیں ہوئے تھے، انہوں نے اپنی ذمہ دارانہ بیٹنگ سے بھارتی پیس اٹیک کو بے بس کردیا تھا جس میں عرفان پٹھان، اشیش نہرا اور ظہیر خان شامل تھے۔
چنئی، جہاں پاکستان نے ورلڈ ریکارڈ بھی بنایا
سن 1997 میں پاکستان نے بھارت کے آزادی کپ میں شرکت کی، لیکن یہ ٹورنامنٹ اب پاکستانی اوپنر سعید انور کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔ بھارت کے خلاف میچ میں انہوں نے نہ صرف 194 رنز کی اننگز کھیلی بلکہ اس وقت ون ڈے انٹرنیشنل کی سب سے بڑی انفرادی اننگز کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سعید انور کو اس اننگز کے دوران کراؤڈ سے بھرپور سپورٹ ملی اور جس وقت وہ سر ویوین رچرڈز کے ریکارڈ سے آگے نکلے، انہیں تماشائیوں نے کھڑے ہوکر داد دی۔
اس ریکارڈ ساز کارکردگی کے دو سال بعد سن 1999میں جب پاکستان نے بھارت میں بارہ سال کے وقفے کے بعد اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا، تو وہ میچ بھی چنئی میں کھیلا گیا جہاں وسیم اکرم کی قیادت میں پاکستان نے سخت مقابلے کے بعد میزبان ٹیم کو 12 رنز سے شکست دی۔
اس میچ میں پاکستان کی جانب سے ثقلین مشتاق نے دونوں اننگز میں پانچ پانچ وکٹیں حاصل کیں، جب کہ اپنا دوسرا ٹیسٹ میچ کھیلنے والے شاہد آفریدی نے ٹیسٹ کریئر کی پہلی سینچری اسکور کی۔
پاکستان کی کامیابی کے بعد پوری ٹیم نے گراؤنڈ کا چکر لگایا اور چنئی کے کراؤڈ سے داد سمیٹی جس نے پورے میچ میں اچھی کرکٹ کو سپورٹ کیا تھا۔
بنگلورو میں پاکستان کی کبھی خوشی کبھی غم جیسی صورتِ حال
بنگلورو کا اسٹیڈیم پاکستان کے لیے یادگار بھی ہے لیکن یہاں ایک ایسا میچ بھی کھیلا گیا جسے گرین شرٹس کے مداح بھلائے نہیں بھولتے۔ جیتنے والا میچ 1987 میں اسی گراؤنڈ پر عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے کھیلا تھا جس میں کامیابی کے بعد پاکستان نے بھارت کو پہلی مرتبہ اس کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز ہرائی۔
جب پانچ میچز پر مشتمل سیریز کا آخری میچ اس گراؤنڈ پر کھیلا گیا تو سیریز صفر صفر سے برابر تھی، ایسے میں پاکستان کے اسپنرز اقبال قاسم اور توصیف احمد کی نو نو وکٹوں کی مدد سے پاکستان نے بھارت کو 16 رنز سے شکست دے کر سیریز اپنے نام کی۔
دونوں اسپنرز نے پہلی اننگز میں پانچ پانچ اور دوسری اننگز میں چار چار وکٹیں حاصل کیں، یہ میچ بھارتی لیجنڈری بلے باز سنیل گواسکر کے کریئر کا آخری ٹیسٹ میچ تھا، جس میں ان کی 96 رنز کی اننگز بھی میزبان ٹیم کو شکست سے نہ بچاسکی۔
اس کامیابی کے نو سال بعد ورلڈ کپ 1996 کے کوارٹر فائنل میں پاکستان اور بھارت کا سامنا ہوا ، جہاں ایک وقت میں پاکستانی اوپنرز کے بیٹ سے رنز اگل رہے تھے اور کراؤڈ خاموش تماشائی بنا بیٹھا تھا۔ جیت کی جانب بڑھتی ہوئی پاکستان ٹیم کو پہلا نقصان کپتان عامر سہیل کی صورت میں ملا جنہوں نے غیرضروری انداز میں مخالف بالر وینکاٹیش پرساد کو چھیڑا، جس کے بعد کوئی دوسرا بلے باز وکٹ پر نہ جم کر کھیل سکا اور پاکستان ٹیم ایونٹ سے باہر ہوگئی۔
یہ میچ پاکستان کے مایہ ناز بلے باز جاوید میانداد کے کرئیر کاآخری میچ تھا جس میں انہوں نے 38 رنز بنائے تھے، لیکن ٹیم کو فتح سے ہمکنار نہ کرسکے تھے۔
حیدرآباد دکن ، احمد آباد پاکستان کے لیے نئے نہیں
میگا ایونٹ کے دوران پاکستان ٹیم حیدرآباد دکن اور احمد آباد میں بھی میچز کھیلے گی لیکن یہاں انہوں نے زیادہ میچز نہیں کھیلے ہیں۔
حیدرآباد دکن میں گرین شرٹس نے اب تک صرف دو ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے ہیں جس میں سے 1983 میں ہونے والے میچ میں انہیں بھارت کے ہاتھوں چار وکٹ سے شکست ہوئی تھی۔
سن1987 میں کھیلا جانے والا دوسرا ون ڈے میچ برابری پر ختم ہوا تھا، لیکن اس میچ میں اسکور برابر ہونے کی صورت میں بھارت کو اس وقت کے قوانین کے مطابق فاتح قرار دیا گیا تھا کیوں کہ اننگز میں اس کی پاکستان کے مقابلے میں کم وکٹیں گری تھیں۔
دوسری جانب احمد آباد کے جس اسٹیڈیم میں پاکستان نے بھارت کے خلاف میچ کھیلے اسے اب نریندر مودی اسٹیڈیم کہا جاتا ہے جس کا پرانا نام سردار پٹیل اسٹیڈیم تھا۔ اس میدان پر 1987 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا جانے والا ٹیسٹ میچ ڈرا ہوا تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان 2012 میں کھیلی جانے والی آخری باضابطہ سیریز کے ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھارت نے 11 رنز سے کامیابی حاصل کی تھی، وہ بھی احمد آباد میں کھیلا گیا تھا۔
جب ورلڈ کپ کے شیڈول کا اعلان ہوا تھا تو پاکستان نے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے آئی سی سی کو آگاہ کیا تھا کہ بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں وہ ورلڈکپ میچز نہیں کھیلیں گے۔
اس وقت کے پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی نے کہا تھا کہ اگر پاکستان ٹیم فائنل میں پہنچی تو وہ نریندر مودی اسٹیڈیم میں کھیلنے پر رضامند ہوجائے گی، لیکن اس کے علاوہ کوئی میچ نہیں کھیلے گی کیوں کہ اسے سب سے زیادہ سیکورٹی خدشات اسی شہر میں ہیں۔
فورم