پاکستان کے مرکزی بینک نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں آئندہ تین ماہ تک شرح سود 13.25 فیصد پر برقرار رکھی جائے گی۔ اسٹیٹ بینک کی کمیٹی برائے زر نے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرنے اور اسے 13.25 فیصد پر قائم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
فیصلے سے کمیٹی کے اس نقطہ نظر کی عکاسی ہوتی ہے کہ ملک میں مہنگائی کی لہر میں اب تک کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔
کمیٹی کے نتائج کے مطابق، ایک جانب مہنگائی کے اعداد و شمار زیادہ تر بلند رہے اور بنیادی طور پر غذائی قیمتوں کے دھچکوں اور یوٹیلٹی نرخوں میں ممکنہ اضافے کی بنا پر مہنگائی کو مختصر مدتی خطرات لاحق رہے ہیں۔
زری کمیٹی کے کہا ہے کہ کئی ایسے عوامل بھی نظر آ رہے ہیں جن کے نتیجے میں مہنگائی پر دباؤ بتدریج کم ہونے کی توقع ہے۔ ان میں مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ کے متعارف کیے جانے کے بعد ایکسچینج ریٹ میں حالیہ اضافہ اور جاری مالیاتی یکجائی شامل ہیں۔ اجلاس کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی اوسط مہنگائی کے لیے پیش گوئی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی جو 11 سے 12 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
کمیٹی نے توجہ دلائی ہے کہ جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں کمی اور مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ نظام اپنائے جانے کے بعد زرمبادلہ مارکیٹ میں حالات مستحکم رہے۔
اسی طرح، ملک میں معاشی سرگرمیوں میں بھی تیزی اور بہتری دیکھی گئی۔ بقول کمیٹی مالیاتی تبدیلیاں درست راہ پر گامزن اور آئی ایم ایف کی مدد سے چلنے والے پروگرام کے تحت کیے گئے وعدوں سے ہم آہنگ رہیں، جس سے مجموعی معاشی اصلاحاتی احساسات میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔
اہم فصلوں کی پیداوار کے تازہ ترین تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کپاس کے سوا خریف کی تمام فصلوں کی پیداوار توقع کے مطابق رہے گی۔ رسدی دھچکوں کے باعث کپاس کی پیداوار کے تخمینے میں کمی کی گئی ہے۔ بڑے پیمانے پر اشیا سازی (ایل ایس ایم) کی صنعتوں کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ برآمداتی اور درآمدی مسابقت پر مبنی صنعتوں میں معاشی سرگرمی بڑھ رہی ہے، جبکہ ملکی نوعیت کی صنعتیں بدستور سست روی کا شکار ہیں۔
اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ ملک میں ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، انجینئرنگ کے سامان، ربڑ کی مصنوعات، سیمنٹ اور کھاد کی صنعتوں میں تیزی جبکہ گاڑیوں، الیکٹرانکس، غذا، کیمیکلز اور پیٹرولیم مصنوعات میں سست روی دیکھی گئی۔ مرکزی بینک کے مطابق، معاشی سرگرمیوں کے دستیاب ماہانہ اظہاریوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بیشتر معاشی شعبوں میں سست روی اپنی پست ترین سطح تک پہنچ چکی ہے جس کی آئندہ مہینوں میں بتدریج بحالی کی توقع کی جارہی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق، مالی سال 20ء کی پہلی ششماہی کے دوران جاری کھاتے کا خسارہ 75 فیصد کمی کے ساتھ 2.15 ارب ڈالر پر آ گیا، جس کا سبب درآمدات میں نمایاں کمی اور برآمدات اور بیرون ملک سے کارکنوں کی ترسیلات زر دونوں میں معتدل نمو ہے۔ سرمایہ کھاتے میں بھی بیرونی پورٹ فولیو سرمایہ کاری اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری کی مد میں رقوم کی آمد کے باعث مسلسل بہتری کا رجحان رہا۔
اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر آخر جون 2019ء تک 7.28 ارب ڈالر تھے جو 17جنوری 2020ء کو بڑھ کر 11.73 ارب ڈالر پر آ گئے ہیں۔ اس طرح ذخائر میں 4.45 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور مالی سال 20ء کے ابتدائی چھ مہینوں میں اسٹیٹ بینک کے قلیل مدتی واجبات میں 3.82ارب ڈالر کمی ہوئی۔ اس پیش رفت کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کے خالص بین الاقوامی ذخائر کی پوزیشن میں خاصی بہتری آ چکی ہے۔
زری پالیسی کمیٹی نے رائے ظاہر کی کہ بیرونی پورٹ فولیو رقوم کی حالیہ آمد قرض کی ادائیگی کے حوالے سے پاکستان کی ساکھ کے بارے میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے بہتر ہوتے ہوئے احساس کی عکاس ہے۔ کمیٹی کی رائے کے مطابق، مالی سال کے دوران مالیاتی یکجائی اب تک درست راستے پر گامزن رہی ہے اور مہنگائی کے منظرنامے میں معیاری بہتری لائی ہے۔ مالی سال 20ء کی پہلی ششماہی کے دوران ٹیکس وصولی میں گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے، ان میں غیر سودی اخراجاتِ جاریہ پر سختی سے قابو پایا گیا ہے، سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کے لیے وفاقی حکومت نے مالی سال 20ء کی پہلی ششماہی کے دوران 300 ارب روپے جاری کیے جو گذشتہ سال کی اسی مدت کے لیے 187 ارب روپے تھے۔ سرکاری اخراجات میں اس اضافے سے توقع ہے کہ کاروباری خصوصاً تعمیرات سے منسلک سرگرمیوں کو سہارا ملے گا
کمیٹی نے اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ یکم جولائی تا 17جنوری مالی سال 20ء کے دوران نجی شعبے کے قرضے میں گذشتہ برس کی اسی مدت کے 8.5 فیصد کی نسبت 2.2 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ سست روی بڑی حد تک پست معاشی سرگرمی کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم، اسی مدت کے دوران اسٹیٹ بینک کی برآمدی مالکاری اسکیم اور طویل مدتی مالکاری سہولت برائے برآمد کنندگان کے تحت لیے گئے قرضوں میں 20.6 فیصد اور 13.2 فیصد اضافہ ہوا، جس سے برآمدات کی حالیہ نمو کو تقویت ملی ہے۔
زری پالیسی کمیٹی نے کہا ہے کہ مہنگائی کے حالیہ اعدادوشمار اضافے کے عکاس رہے ہیں۔ نومبر اور دسمبر 2019ء کے دوران قومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی بڑھ کر 12.7 فیصد اور سال بسال کی بنیاد پر 12.6 فیصد ہوگئی، جو بڑی حد تک رسد کے عارضی تعطل اور مقررہ قیمتوں کے بڑھنے کی وجہ سے منتخب غذائی اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کی عکاسی کرتی ہے۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر یہ صورتِ حال برقرار رہی تو غذائی اشیا کی بلند قیمتیں اجرت میں تیز اضافے کی طلب اور اجرت و قیمت کے چکر کے ممکنہ خطرات پر منتج ہوں گی۔ تاہم، مہنگائی کی توقعات خاصی حد تک قابو میں بتائی جاتی ہیں۔
معاشی ماہرین کی رائے:
ادھر معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ غیر متوقع بالکل نہیں۔ معاشی تجزیہ کار سعد ہاشمی کے مطابق، ملک میں مہنگائی کی شرح میں اب تک کوئی خاص کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔
بلند شرح سود رکھنے سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی عارضی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن، شرح سود بلند رکھنے سے ملک میں معاشی سرگرمیاں بھی مانند پڑی ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ آئندہ چند سالوں میں ملک کی برآمدات میں اضافہ ہو۔ لیکن، معیشت اس وقت بھی استحکام کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے تک شرح سود بلند ہی رہے گی جس سے معاشی ترقی کی رفتار سست روی سے جاری رہنے کی توقع کی جا رہی ہے۔