پاکستان کے اسٹیٹ بینک نے ملکی معیشت کی کیفیت پر رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جولائی سے ستمبر 2020 کے دوران معیشت میں بعض حوصلہ افزا علامات پائی گئی ہیں۔ ملکی معیشت کرونا وبا کے منفی اثرات سے نکل کر پہلے کی راہ پر دوبارہ گامزن ہو رہی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ملک میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں نمایاں پیش رفت نظر آئی۔
بینک کا کہنا ہے کہ مختلف عوامل سے نشان دہی ہوتی ہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے کرونا بحران سے نمٹنے کے لیے بر وقت اور مربوط معاشی پالیسی سے بحران کے شدید اثرات کو کم رکھنے اور معاشی بحالی کی بنیاد رکھنے میں مدد ملی۔
تاہم ماہرِ معاشیات خرم شہزاد کے خیال میں یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ پاکستان کی معیشت کرونا کے اثرات سے نکل آئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کرونا کی دوسری لہر چل رہی ہے اور پاکستان بھی اس کا شکار ہے۔ جب کہ دنیا بھر میں معیشتیں دوبارہ مندی کا شکار اور شٹ ڈاؤن موڈ میں جا رہی ہیں جس کا اثر پاکستان پر بھی لامحالہ ضرور پڑے گا۔
ان کے خیال میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے یہ کہنا کہ معیشت اس وبا کے اثرات کو زائل کرکے وبا سے قبل کی صورتِ حال میں واپس آ گئی۔ کچھ بے معنی لگتا ہے۔
'ترسیلات زر کا رخ باضابطہ ذرائع کی جانب موڑنے میں مدد ملی'
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق بیرونی شعبے میں سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی مضبوطی، برآمدات کی بحالی اور خدمات کی کم درآمدات کی وجہ سے مالی سال 2020 کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسی طرح حکومت کی جانب سے پاکستان ریمیٹینس انیشیٹو کے تحت مسلسل پالیسی اقدامات اور باضابطہ ڈیجیٹل ذرائع کے فروغ نے ترسیلاتِ زر بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
رپورٹ کے مطابق کرونا کی وجہ سے بین الاقوامی فضائی سفر پر عائد پابندیوں سے بھی ترسیلات زر کا رخ بے ضابطہ کے بجائے باضابطہ ذرائع کی جانب موڑنے میں مدد ملی۔ جب کہ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی خدمات (سروسز) کی درآمدات کی سطح میں کمی واقع ہوئی۔
برآمدی کارکردگی دیگر ابھرتی معیشتوں کے مقابلے میں قدرے بہتر قرار
ادھر دوسری جانب تیل کی عالمی قیمتوں میں تیزی سے کمی کی وجہ سے پہلی سہ ماہی کے دوران درآمدی ادائیگیاں گزشتہ برس کے مقابلے میں قدرے کم رہیں۔
رپورٹ کے مطابق برآمدی وصولیاں گزشتہ مالی سال یعنی 20-2019 کی آخری سہ ماہی کی کم سطح کے مقابلے میں بحال ہوئیں۔ لیکن یہ مالی سال 2020 کی پہلی سہ ماہی کی نسبت کسی حد تک کم رہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی برآمدی کارکردگی متعدد دیگر ابھرتی معیشتوں کے مقابلے میں قدرے بہتر رہی جس کا ایک سبب معاشی سرگرمیوں کی قدرے جلد بحالی تھی۔ نتیجتاً، برآمدات نے کرونا سے پہلے ستمبر 2019 کی سطح کو چھو لیا ہے۔ جسے ٹیکسٹائل، سیمنٹ اور دوا سازی کی بلند برآمدی وصولیوں سے مدد ملی۔
بحیثیت مجموعی، سرپلس کرنٹ اکاؤنٹ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید اضافہ ہوا اور سہ ماہی کےدوران شرح مبادلہ کو تقویت ملی۔
رپورٹ کے مطابق حکومت اور اسٹیٹ بینک کی بروقت اور مربوط پالیسی کے ذریعے وبا کے اثرات زائل کرنے کی قومی کوششوں سے معاشی بحالی کو جڑ پکڑنے کے لیے سازگار ماحول فراہم ہوا۔
سیمنٹ، گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ
رپورٹ کے مطابق صنعت کے شعبے میں سیمنٹ اور فوڈ پروسیسنگ کی صنعتوں میں قابل ذکر نمو کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کے شعبے میں بحالی بھی ہوئی۔
سیمنٹ کی ترسیلات، پیٹرولیم مصنوعات اور کاروں کی فروخت، بجلی کی پیداوار، اور جلد فروخت ہونے والی اشیا یعنی فاسٹ موونگ کنزیومر گڈز کی فروخت کی طلب کے اظہاریے میں اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔
اسی طرح لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں کسی حد تک اضافے سے اس شعبے میں روزگار میں بھی نمو دیکھی گئی ہے۔ جس کی عکاسی پنجاب اور سندھ کے شماریاتی بیوروز کے مرتب کردہ صنعتی روزگار کے جولائی اور اگست 2020 کے ماہانہ سرویز سے بھی ہوتی ہے۔
کپاس کی کاشت کا رقبہ 38 سال کی کم ترین سطح پر
مرکزی بینک نے بتایا گیا ہے کہ ملک میں کپاس کی پیداوار ہدف سے خاصی کم رہی۔ اس فصل کے زیر کاشت رقبہ 82-1981 کے بعد سے کم ترین سطح پر آ گیا ہے اور مون سون کی غیر معمولی زیادہ بارشوں خصوصاً سندھ کے کپاس اگانے والے کچھ اضلاع میں اور کیڑوں کے حملوں نے بھی کپاس کی یافت کم کرنے میں کردار ادا کیا۔
رپورٹ کے مطابق سندھ میں کپاس کی 27 فی صد فصل بارشوں اور سیلاب کی نذر ہوگئی۔
بینک کے مطابق تاہم زرعی شعبے میں خریف کے سیزن میں کپاس کے علاوہ تمام اہم فصلوں کی پیداوار ان کے اہداف سے زیادہ رہی۔
رواں مالی سال شرح نمو 1.5 سے 2.5 فی صد رہے گی: اسٹیٹ بینک
اسٹیٹ بینک نے رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں رواں سال شرح نمو 1.5 سے 2.5 فی صد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ جب کہ حکومت کی جانب سے رواں سال مجموعی قومی پیداوار کی شرح 2.1 فی صد رکھنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
یاد رہے کہ مالی سال 2020 کے دوران حکومت پاکستان کے اندازوں کے مطابق ملک کی مجموعی قومی پیداوار منفی 0.4 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی۔ جو ملکی تاریخ کے 68 سال بعد اس قدر کم رہی۔
ورلڈ بینک کے اندازے کے مطابق یہ شرح منفی 1.5 فی صد رہی تھی۔ تاہم 19-2018 کے دوران پاکستان کی حقیقی مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی شرح 1.9 فی صد اور 18-2017 میں یہ شرح 5.5 فی صد رہی تھی۔
ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ 'گلوبل اکانومی پراسپیکٹس' کے مطابق پاکستان میں مالی سال 2021 کے دوران مجموعی قومی پیداوار 0.5 تک رہنے کی توقع ہے جو خطے میں تیسری کم ترین شرح شمار کی جا رہی ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں جنوبی ایشائی ممالک میں بھارت کی مجموعی قومی پیداوار منفی 9.6 فی صد، بھوٹان کی منفی 0.7 فی صد جب کہ افغانستان، مالدیپ، سری لنکا، بنگلہ دیش، اور نیپال کی مجموعی قومی پیداوار پاکستان سے زیادہ رہنے کا امکان ہے۔
مہنگائی کی شرح حکومتی ہدف سے زیادہ رہنے کا اندیشہ
اسٹیٹ بینک کی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق ادھر مہنگائی کے محاذ پر گزشتہ سہ ماہی کی نسبت مالی سال 2021 کی پہلی سہ ماہی میں عمومی مہنگائی مزید بڑھ گئی جسے غذائی مہنگائی سے منسوب کیا گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اندازوں کے مطابق رواں سال کے اختتام پر ملک میں اوسط مہنگائی کی شرح یا افراط زر 7 سے 9 فی صد رہنے کا امکان ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے اس سال یہ شرح 6.5 فی صد رکھنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر مہنگائی کی شرح 10.7 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی۔
ماہرِ معاشیات خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اور خاص طور پر غذائی اشیا کی مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
ان کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نےغذائی اشیا میں سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی ہے اور دوسری جانب اس کا استعمال بھی کچھ بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وبا کے حالیہ دور میں مشکل معاشی صورتِ حال میں لوگوں نے اپنی جمع پونجی غذائی اشیا کے حصول میں خرچ کی۔ اس سے پہلے یہ بچت کی رقم لوگ کپڑوں، جوتوں اور گاڑیوں کی خریداری میں خرچ کرتے تھے۔
خرم شہزاد کہتے ہیں کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ طلب و رسد کے معاملات کی وجہ سے بھی غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ان غذائی اشیا کی تیاری سے لے کر مارکیٹ میں آنے تک ہونے والے انفراسٹرکچر میں کوئی بہتری لائی ہی نہیں گئی۔ ہمارے نظام میں آڑھتی آج بھی زیادہ اثر و رسوخ رکھتا ہے
شرح سود سات فی صد رکھنے کے فیصلے کی تائید
مرکزی بینک کی مالیاتی پالیسی کمیٹی نے سہ ماہی کے دوران پالیسی ریٹ 0.7 فی صد پر برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ یہ شرح سود، حکومت اور اسٹیٹ بینک کی معاون پالیسیوں کے مطابق معاشی بحالی کی معاونت کے لیے مناسب ہے۔ جب کہ اس سے مہنگائی پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ مالی استحکام کے تحفظ میں بھی مدد ملے گی۔
رپورٹ مین کہا گیا ہے کہ سازگار مالیاتی پالیسی کے علاوہ مرکزی بینک نے کرونا کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے جن سے مالی سال 2021 کی پہلی سہ ماہی میں اسٹیک ہولڈرز کو سہولتوں کی فراہمی میں مدد ملی۔
مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے حکومتی اخراجات میں کمی پر زور
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال حکومت کو مجموعی قومی پیداوار کے 6.5 سے 7.5 فی صد کے درمیان مالیاتی خسارہ رہنے کی توقع ہے۔ جب کہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر یہ 8.1 فی صد کی بلند سطح پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ حکومت نے اس سال کے اختتام پر اسے 7 فی صد تک لانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔
خرم شہزاد کے مطابق اس کا حل وفاقی حکومت کی جانب سے غیر ضروری اور غیر ترقیاتی خرچے کم کرنے ہی میں پوشیدہ ہے۔
ان کے بقول اس کے ساتھ پبلک سیکٹر کے کاروباری اداروں کے نقصانات کم کیے جائیں اور اس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کم کرنے کے ساتھ ہی مالیاتی خسارے پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مالیاتی لحاظ سے گزشتہ سہ ماہی میں کرونا وبا کے سبب بگاڑ کے بعد مالی سال 2021 کی پہلی سہ ماہی میں بنیادی توازن دوبارہ سرپلس ہوگیا۔