سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ محب وطن ہونے اور مذہب کے کارڈز سے ابھی تک جمہوریت باہر نہیں نکل سکی ہے۔ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے تمام ارکان کو غداری کا ملزم بنا دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پیپلز پارٹی کے وکیل کی طرف سے فل کورٹ تشکیل دینے کے مطالبہ پر استفسار کیا کہ اگر لارجر بینچ میں کسی پر عدم اعتماد ہے تو نام بتا دیں وہ اٹھ جائیں گے؟
قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر از خود نوٹس کیس کی سماعت پیر کو چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
کیس پر سماعت کا آغاز ہوا تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے 21 مارچ 2022 کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ انتخابات کے لیے تیار ہیں۔ سارا مسئلہ جلدی انتخابات کا تھا۔ صدارتی ریفرنس کو موجودہ از خود نوٹس کے ساتھ سنا جائے۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں کہا کہ ان کے سامنے سیاسی باتیں نہ کی جائیں۔
فل کورٹ بنانے کا مطالبہ
سماعت کے آغاز میں پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے فل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا کی۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آئین کے کون سے سوالات پر فل کورٹ کی ضرورت ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نےکہا کہ اگر آپ کو بینچ میں کسی پر اعتراض ہے تو بتا دیں ہم اٹھ جاتے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ کی وجہ سے تمام دیگر مقدمات متاثر ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی فل کورٹ کی وجہ سے 10 ہزار مقدمات کا اضافہ ہوا۔
تحریکِ عدم اعتماد کا طریقۂ کار کیا ہے؟
فاروق نائیک سے عدالت نے سوال کیا کہ کیا تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت اسپیکر دیتا ہےیا ایوان؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اسپیکر ہاؤس میں قرار داد پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہاؤس میں قرار داد پیش ہونے کے بعدایوان سے منظوری لی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد پر بحث کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ اجلاس شروع ہوا تو وزیرِ قانون فواد چوہدری نے آرٹیکل پانچ کے حوالے سے سوال کیا۔ فواد چوہدری کے پوائنٹ آف آرڈر پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ جاری کر دی۔
بینچ کے رکن جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ تین اپریل کو اجلاس میں تحریک پر بحث کا موقع دینے کے بجائے ووٹنگ کے لیے مقرر کیا گیا اور تحریکِ عدم اعتماد پربحث کے بغیر براہِ راست ووٹنگ کا دن کیسے مقرر کیا جا سکتا ہے؟
اس پر فاروق ایچ نائیک نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 27 مارچ کو عمران خان نے جلسے میں غیر ملکی خط لہرایا اور الزام لگایا کہ اپوزیشن غیر ملکی سازش کا حصہ ہے۔ 31 مارچ کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اور کابینہ کا اجلاس ہوا۔ 31 مارچ کو ہی تحریکِ عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی لیکن اجلاس تین اپریل تک ملتوی کر دیا گیا۔ 31 مارچ کو رولنگ میں بھی تحریک پر بحث کا نہیں کہا گیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں 31 مارچ کو بحث ہونی تھی۔ اگر تین اپریل کو بحث ہوتی تو چار اپریل کو بھی ووٹنگ ہو سکتی تھی۔
فاروق نائیک نے کہا کہ فواد چوہدری کے پوائنٹ آف آرڈر پر بحث بھی ہو سکتی تھی۔ اسپیکر اسد قیصر کو معلوم تھا کہ یہ غیر قانونی اقدام ہے اس لیے وہ موجود نہیں تھے۔ ایوان میں اگر کوئی سوال اٹھتا ہے تو اس پر ایوان میں بحث لازمی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فواد چوہدری کے سوال پر بحث نہ کرانا پروسیجرل غلطی ہو سکتی ہے۔ فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ نہیں یہ پروسیجرل ایشو نہیں ہے یہ بدنیتی ہے۔
کیا ڈپٹی اسپیکر رولنگ دے سکتا ہے؟
دورانِ سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر نے کس قاعدے کے تحت رولنگ دی ہے؟
جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر رولز کے مطابق اسپیکر کی عدم موجودگی میں اجلاس کو چلاتا ہے۔ کیا ڈپٹی اسپیکر کو رولز کے مطابق ایسی رولنگ دینے کا اختیار ہے؟ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کو ایسی رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ رول 28 کے تحت تو اسپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے۔ اسپیکر رولنگ ایوان میں یا اپنے آفس میں فائل پر دے سکتا ہے۔ کیا اسپیکر اپنی رولنگ واپس لے سکتا ہے؟
فاروق نائیک نے جواب دیا کہ رولنگ واپس لینے کے حوالے سے اسمبلی رولز خاموش ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ سے ارکان اسمبلی کو ہی غدار قرار دے دیا۔ ایوان میں ووٹنگ کے لیے اپوزیشن کے 198 ارکان موجود تھے۔
’کیا ووٹنگ کے لیے اجلاس بلا کر تحریکِ عدم اعتماد پر رولنگ دی جا سکتی ہے؟‘
بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا ووٹنگ کے لیے اجلاس بلا کر تحریکِ عدم اعتماد پر رولنگ دی جا سکتی ہے؟ تحریکِ عدم اعتماد پر فیصلہ ووٹنگ سے ہی ہونا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کس طرح غیرآئینی ہے یہ بتائیں؟ اسپیکر کی طرف سے ارکان اسمبلی کو غدار قرار دینے کی رولنگ غیر قانونی کیسے ہوئی؟
فاروق نائیک نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر صرف اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ قائم مقام اسپیکرکے لیے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے اور جس خط کی بنیاد پر سب کچھ ہوا وہ اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا۔
’پارلیمانی کارروائی غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی ہو تو چیلنج بھی ہو سکتی ہےاور کالعدم بھی‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فارق ایچ نائیک سے کہا کہ آپ کا نکتہ ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ فکس تھی۔ ووٹنگ فکس ہونے کے بعد عدم اعتماد کی تحریک مسترد نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے سوال کیا کہ اسپیکر کس اسٹیج پر تحریکِ عدم اعتماد کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتے ہیں؟ اسپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل فائیو کا سہارا لیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ تحریک 20 فی صد سے کم ارکان کی جانب سے پیش کرنے کی منظوری دینے پر ہی مسترد ہو سکتی ہے۔ اسپیکر کسی صورت تحریکِ عدم اعتماد کو بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دے سکتا۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل فایئو کے سہارے بھی تحریکِ عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی۔ تحریکِ عدم اعتماد پر رولنگ آئین کے خلاف ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ایوان کا ہے۔
’ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں پارلیمانی کمیٹی کا بھی ذکر ہے‘
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی عدالتی فیصلہ دیں جس میں عدالت نے آرٹیکل 69 کی تشریح کی ہو۔
اس پر فاروق ایچ نائیک نے چا رمختلف کیسز کے حوالے دیے۔انہوں نے دلائل دیے کہ پارلیمانی کارروائی غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی ہو تو چیلنج بھی ہو سکتی ہے اور کالعدم بھی۔ بدنیتی کی بنیاد پر آرٹیکل 254 کا سہارا نہیں لیا جا سکتا۔ رولنگ دینے سے پہلے اپوزیشن کا مؤقف نہیں سنا گیا۔ تمام اپوزیشن ارکان کو غداری کا ملزم بنا دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں پارلیمانی کمیٹی کا بھی ذکر ہے۔ اپوزیشن نے جان بوجھ کر کمیٹی میں شرکت نہیں کی۔ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں سارا معاملہ رکھا گیا تھا۔ اس سوال کا جواب تمام اپوزیشن جماعتوں کے وکلا نے دینا ہے۔
کیس کی سماعت ملتوی کرنے پر فاروق ایچ نائیک نے اصرار کیا کہ مقدمے کو آج ہی مکمل کریں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دوسرے فریق کو سننا بھی ضروری ہے تاکہ فیصلہ ہو جائے۔ آج ہی سن کر فیصلہ دینا ممکن نہیں۔
سماعت ملتوی
عدالت نے سماعت منگل کی دوپہر 12 بجے تک ملتوی کردی ۔ منگل کے روز پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی اور دیگر وکلا دلائل دیں گے۔
اس معاملے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز ازخود نوٹس لیتے ہوئے فوری سماعت کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ روز تمام سیاسی جماعتوں کو امن وامان برقرار رکھنے اور تمام اداروں کو کسی غیر آئینی اقدام سے باز رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اتوار کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یہ کیس سنا تھا۔ تاہم پیر کو چیف جسٹس نے اس کیس کی سماعت کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا جس میں چیف جسٹس سمیت جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل ہیں۔
گزشتہ روز کے بینچ میں شامل جسٹس محمد علی مظہر لارجر بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔ اس کیس کی سماعت کے باعث سپریم کورٹ میں جاری آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا کیس مؤخر کر دیا گیا ہے۔