اس اخباری رپورٹ پر کہ اگلے عشرے تک امریکہ اور روس کے بعد پاکستان جوہری ہتھیار رکھنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن جائے گا، اور یہ دعویٰ کہ پاکستان کے پاس تقریباً 350 نیوکلیئر ہتھیار ہو جائیں گے، امریکی محکمہٴخارجہ نے کہا ہے کہ اس معاملے پر کوئی ’اپ ڈیٹ‘ موجود نہیں، جِس پر کچھ کہا جائے۔
یہ بات محکمہٴخارجہ کے ترجمان، جان کِربی نے جمعرات کے روز اخباری بریفنگ کے دوران کیے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی۔ اخباری نمائندے نے واشنگٹن ڈی سی کی دو تھنک ٹینکس کی جانب سے اِس دعوے پر تبصرے کے لیے کہا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ یہ رپورٹ اُن کی نظر سے گزری ہے، جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
بقول ترجمان، ’اِس وقت میں اِس رپورٹ پر کچھ کہنا نہیں چاہتا۔۔۔۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر، ظاہر ہے، ہمارا دھیان رہتا ہے۔۔۔ صدر کا نصب العین یہی ہے کہ ہم جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے، ہم جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے تمام ملکوں، جِن میں پاکستان بھی شامل ہے، اُن پر زور دیں گے کہ وہ اپنی نیوکلیئر صلاحیتوں میں مزید اضافہ لانے سے گریز کریں۔۔۔ تاہم، اِس رپورٹ کا جائزہ لیا جا رہا ہے‘۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ کی اطلاعات کے حوالے سے ایک سوال پر، جان کربی نے کہا کہ امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ تناؤ میں کمی لائی جائے؛ جب کہ اِس قسم کے خدشے کا اظہار کہ جوہری ہتھیار استعمال ہوسکتا ہے، تناؤ میں کمی لانےکا باعث نہیں ہو سکتا، اگر اِس طرح کی کوئی بیان بازی کی جائے۔
ترجمان نے یاد دلایا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری بارہا کہتےآئے ہیں کہ دونوں ملکوں کو مل کر کام کرنا ہوگا، اور مسائل کے حل کے لیے تعمیری بات چیت کرنا ہوگی۔۔۔ اور ہمیں علم ہے کہ طویل مدت کےمسائل ہیں۔۔۔ لیکن، کرنا یہی ہوگا کہ مل بیٹھ کر مکالمے اور تعاون کے ذریعے، اِن معاملات پر گفتگو کرکے، بامعنی حل کی جانب بڑھا جائے۔
اُن سے سوال کیا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تناؤ کا ماحول ہے، جب کہ اعلیٰ سطح پر مذاکرات میں تعطل کا شکار ہیں، ایسے میں جب کہ دونوں ملک جوہری طاقتیں ہیں، جنھیں دہشت گردی کی صورت حال کا سامنا ہے۔۔۔ ترجمان سے پوچھا گیا تھا کہ اِس سلسلے میں، امریکہ کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔
ادھر، محکمہٴخارجہ نے کہا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران کوششیں کی جاتی رہی ہیں کہ افغانستان سلامتی، استحکام، خطے میں اچھی ہمسائگی کا حامل اور ایک خوش حال ملک کا درجہ حاصل کرے، اور اب بھی یہی ہدف ہے۔
ترجمان، جان کِربی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ہدف تبھی حاصل ہوگا جب افغانستان میں مثبت و پختہ ادارے ہوں گے۔ جب کہ اِس وقت ’رزولوٹ سپورٹ مشن‘ کا دھیان سلامتی افواج پر مرتکز ہے، تاکہ افغان قومی افواج ملک کے اندر سکیورٹی کے مشن میں اپنی قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔
اُن سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ دہشت گردی اور طالبان کے پُرتشدد حربے تیزتر ہوتے جارہے ہیں، اور اس سال اب تک 1600 سولین ہلاک ہوچکے ہیں، اور شدت پسندی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
ترجمان نے کہا کہ ’کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں کہ حالات مشکل ہوں گے، جب کہ صدر اشرف غنی اداروں کی تعمیر اور اُنھیں مضبوط کرنے کی جانب خاص دھیان مرکوز کیے ہوئے ہیں، اور وہ اِس ضمن میں جانفشانی سے کام لے رہے ہیں‘۔
جان کِربی نے کہا کہ امریکہ نیٹو مشن کے لیے فوجی سطح پر مدد دے رہا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ افغان نیشنل سکیورٹی فورسز پیش رفت دکھائیں، جس جانب کوششیں جاری ہیں۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ آئے دِن کے حملوں کی سخت مذمت کی جارہی ہے؛ اور یہ کہ گذشتہ ہفتے یا زیادہ دنوں کے دوران حملوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ صرف اِسی ہفتے، ’رزولوٹ سپورٹ‘ کے مزید دو اہل کار ہلاک ہوئے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ’اِس کام میں وقت لگے گا۔ لیکن، صدر غنی کی حکومت بہتری لانے کی کوشش کر رہی ہے، جس کام میں اُنھیں امریکہ کی مدد حاصل ہے‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں، ترجمان نے کہا کہ پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ہے، جب افغانستان کے دیگر ہمسایوں میں چین اور بھارت شامل ہیں۔ بقول اُن کے، ’بھارت نے گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان کے اندر قابل قدر تعمیری کردار ادا کیا ہے؛ اور اِسی طرح، ہم دیگر ملکوں کی جانب بھی دیکھ رہے ہیں، جن میں چین شامل ہے‘۔
بقول اُن کے، ’میرے خیال میں ایک محفوظ اور خوش حال افغانستان کا بین الاقوامی برادری کے تمام ملکوں کو فائدہ ہوگا؛ اور ہمارے دیگر پارٹنرز کے لیے ہمارا پیغام ہمیشہ یہ رہا ہے کہ ہم سب کی یہی کوشش ہونی چاہیئے کہ افغانستان کی سمت بہتر مستقبل کے حصول کی جانب لگی رہے‘۔