امریکی محکمہٴخارجہ نے پاکستان اور بھارت سے موصول ہونے والی خبروں میں لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کے تبادلے کو ’تشدد کے واقعات‘ قرار دیا ہے۔
بدھ کو ایک سوال کے جواب میں، خاتون ترجمان نے کہا کہ اِس معاملے پر محکمہٴخارجہ کی طرف سے پہلے بھی بات کی گئی ہے، اور یہ کہ امریکہ کو اِن واقعات پر تشویش ہے۔
ساتھ ہی، جین ساکی نے کہا کہ کوشش یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت بات چیت کی طرف آئیں۔ سوال میں کہا گیا تھا کہ فائرنگ کے واقعات کے لیے پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ کیا امریکہ اِن واقعات سے آگاہ ہے، اور اِس سلسلےمیں امریکہ کیا کر رہا ہے۔
ترجمان نے اِس بات کا بھی اعادہ کیا کہ کشمیر پر امریکہ کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی۔
اُن سے پوچھا گیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے واشنگٹن کے حالیہ دورے کے تناظر میں امریکہ بھارت سول نیوکلیئر تعاون کے حوالے سےکیا پیش رفت ہوئی۔ ترجمان نے بتایا کہ اِس معاملے پر گفتگو ضرور ہوئی۔ لیکن، اِس سے متعلق تفصیل موجود نہیں۔
بریفنگ کے دوران، ایک بیان میں، ترجمان نے بتایا کہ 14 اکتوبر کو یورپی یونین کے توسط سے ویانا میں ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر بات چیت ہوگی۔ ترجمان نے اِس توقع کا اظہار کیا کہ 24 نومبر کی ڈیڈلائن سے پہلے ایران بین الاقوامی برادری کو یقین دہانی کرائے گا کہ ایران نے جوہری ہتھیار کےحصول کی کوششیں ترک کر دی ہیں۔
غزہ سے متعلق ایک سوال پر، جین ساکی نے کہا کہ 12 اکتوبر کو قاہرہ میں غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے لیے ’امداد دینے والے ملکوںٕ‘ کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جِس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی شرکت کریں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے امریکہ پہلے ہی 11 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کر چکا ہے۔
ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
اسرائیل کی طرف سے نئی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے ترجمان کا کہنا تھا کہ اِس سلسلے میں امریکہ نے پہلے ہی اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے۔