پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے اِس ماہ کےآخرمیں پاکستان واپسی کا فیصلہ تبدیل نہیں کیا، جبکہ امریکی وزارتِ خارجہ کے مطابق، وطن واپسی پرجنرل (ر) مشرف کو گرفتار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
سابق صدر اِس ماہ کے آخر میں اپنی خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکےپاکستان واپس جانے والے تھے، لیکن پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک کے اِس بیان کے بعد کہ پاکستان آنے پر اُنھیں فورًا گرفتار کر لیا جائے گا، اُن کی واپسی کھٹائی میں پڑتی نظر آئی اور ایسی اطلاعات آنے لگیں کہ شاید وہ پاکستان جانے کا ارادہ بدل دیں یا کم از کم ملتوی کردیں۔
اِس سے قبل سندھ کے وزیر داخلہ منظور وسان بھی یہ کہہ چکے تھے کہ اگر سابق صدر پاکستان آئے تو اُنھیں بے نظیر بھٹو قتل کیس میں گرفتار کر لیا جائے گا اور اکبر بگٹی قتل کیس میں اُنھیں بلوچستان کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ، ذرائع کے مطابق، جنرل (ر) مشرف کی پارٹی،’ آل پاکستان مسلم لیگ‘ کے کئی اہلکاروں نے اُنھیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی واپسی ملتوی کر دیں ۔ البتہ، جمعرات کو لندن میں اپنی پارٹی کے ایک نئے دفتر کے افتتاح کے موقعے پر جنرل مشرف نے کہا کہ ابھی تک ان کا یہی ارادہ ہے کہ وہ اِس ماہ کی ستائیس اور تیس تاریخ کے درمیان پاکستان لوٹیں گے۔ البتہ، وہ اپنی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے پاکستان کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے اس سلسلے میں مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف، امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نلنڈ نے اِن افواہوں کی بھی تردید کی کہ جنرل مشرف کی طرف سے امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن سے ملاقات کی درخواست دی گئی ہے۔
جنرل مشرف اپنے دورِ حکومت میں امریکہ کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے، اور مبصرین کے مطابق، اُن کے اب تک سابق امریکی انتظامیہ کے اہم ارکان سے اچھے تعلقات ہیں۔