آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے سربراہ سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ 27 سے 30 جنوری کے درمیان وطن واپس پہنچ کر دوبارہ ملکی سیاست میں حصہ لیں گے۔
کراچی میں مزار قائد سے متصل میدان میں اتوار کو اپنی جماعت کے ایک جلسے سے ویڈیو فون کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا کہ کہ انھیں واپسی سے روکنے کے لیے مختلف طریقوں سے ڈرایا جا رہا ہے لیکن تمام خطرات کے باوجود وہ ضرور وطن واپس آئیں گے۔
’’میں کراچی آؤں گا اور انشااللہ آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر دوبارہ آپ لوگوں سے خطاب کروں گا۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ سیاسی مفادات کی بنا پر اُن کے خلاف پاکستان میں بے بیناد مقدمات بنائے گئے ہیں جن کا وہ عدالت میں سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں پاکستان کی ایک عدالت نے پرویز مشرف کی گرفتاری کے احکامات جاری کر رکھے ہیں اور اس مقدمے میں حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل چودھری ذوالفقار علی متنبہ کر چکے ہیں کہ مشرف کو وطن واپسی پر گرفتار کر لیا جائے گا۔
تاہم اے پی ایم ایل کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے عدالتی احکامات کے خلاف انھوں نے درخواست دائر کر رکھی ہے اس لیے یہ معاملے ہرگز باعث پریشانی نہیں۔
دوبئی سے اتوار کو اپنی جماعت کے کارکنوں اور حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف نے اپنے دس سالہ دور اقتدار کا حوالا دیا اور کہا کہ اس عرصے کے دوران ملک ترقی کر رہا تھا جبکہ گزشتہ چار سالوں میں ان کے بقول سرکاری ادارے تباہی کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں اور مہنگائی سمیت مختلف مشکلات نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان کی وطن واپسی کا مقصد ملک کی معیشت کو دوبارہ مضبوط کر کے عوام کی خوشحالی ہے۔
لیکن پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ یہ اُن کی جماعت کی انتخابات میں کامیابی کے ذریعے ہی ممکن ہے، اس لیے آل پاکستان مسلم لیگ کے رہنما اور سیاسی کارکن نچلی سطح پر جماعت کی تنظیم سازی کریں۔
پرویز مشرف نے کہا کہ وہ چترال کے حلقے سے آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گے جہاں ان کے بقول ان کو بھر پور عوامی حمایت حاصل ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کے سیاسی حالات انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اب عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کئی مرتبہ آزمائی ہوئی جماعتوں کو دوبارہ اقتدار میں لانا چاہتے ہیں یا پھر تبدیلی کے خواہاں ہیں۔
بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا کہ وہ بلوچ اور پختون عوام نہیں بلکہ تشدد کی کارروائیوں میں ملوث عناصر کے خلاف ہیں۔
2008ء میں صدرات کا منصب چھوڑنے کے بعد سے پرویز مشرف لندن اور دوبئی میں قیام پذیر ہیں۔