سپریم کورٹ میں پاناما لیکس فیصلے کے خلاف دائر نظرِ ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ میڈیا میں عدالت کے خلاف مہم کی قیادت نوازشریف اور اسحاق ڈار نے کی۔
جمعرات کو درخواستوں کی سماعت کے دوسرے روز فاضل ججوں کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر نوازشریف کو مجرم قرار نہیں دیا۔ عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا تھا اور دستاویزات کہتی ہیں کہ نواز شریف نے کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے تنخواہ وصول کی جسے ظاہر نہیں کیا گیا۔
درخواستوں کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار چاہتے ہیں کہ ہم کوئی فیصلہ دیں لیکن اگر کوئی فیصلہ دیا تو بہت خطرناک کام ہوگا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے جمعرات کو مسلسل دوسرے روز بھی پاناما کیس کے فیصلے پر شریف خاندان کی جانب سے دائر نظرثانی اپیلوں کی سماعت کی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث جب کہ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد عدالت کے سامنے پیش ہوئے جبکہ نواز شریف کے بچوں - حسن، حسین اور مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ مصروفیت کے باعث عدالت میں پیش نہ ہوسکے۔
سماعت کے دوسرے روز بھی دلائل جاری رکھتے ہوئے ایڈوکیٹ خواجہ حارث نے کہا کہ نااہلی اور الیکشن کو کالعدم قرار دینا دو الگ الگ معاملات ہیں۔ اگر اثاثے ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کالعدم ہوتا ہے تو نااہلی ایک مدت کے لیے ہوتی ہے۔ نااہلی کے لیے باقاعدہ ٹرائل ضروری ہوتا ہے اور ٹرائل میں صفائی کا موقع ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62 کادائرہ کار بڑا وسیع ہے اور باسٹھ ون ایف صرف اثاثے چھپانے کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 76اے اور 78کی نسبت 62 ون ایف کے اثرات زیادہ سنگین ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کو اقامہ اور تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر نااہل کیا گیا۔ لفظ اثاثے کے ایک سے زیادہ معانی اور تشریحات ہیں۔ نواز شریف نے کبھی تنخواہ کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ کبھی تنخواہ کو اثاثہ سمجھا۔ انہوں نے تنخواہ کو اثاثہ نہ سمجھنے کےباعث ظاہر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور سمجھنے میں غلطی پر کہا گیا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے۔ حالاں کہ غلطی کرنے پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ قانونِ شہادت میں تحریر کو زبانی بات پر فوقیت حاصل ہے۔ تحریری معاہدے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ نواز شریف تنخواہ نہیں لیں گے۔ البتہ معاہدے میں یہ ضرور تھا کہ نواز شریف کو 10 ہزار درہم تنخواہ ملتی ہے۔ اب ہم یہ کیسے مان لیں کہ وہ تنخواہ کو اثاثہ نہیں سمجھتے؟
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر عوامی نمائندگی کے قانون (روپا) کے تحت کارروائی ہونی چاہیے، نااہلی نہیں؟ نواز شریف نے تنخواہ والا اکاؤنٹ ظاہر نہیں کیا جب کہ دستاویزات کے مطابق طریقہ کار کے تحت نوازشریف نے اکاؤنٹ کھولا تھا۔
اس پر وکیل نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا تھا کہ اکاؤنٹ چھپایا گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نوازشریف کا ایمپلائی نمبر 194811 ہے اور دستاویزات کہتی ہیں کہ تنخواہ وصول کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف کے کیپٹل ایف زیڈ ای اکاؤنٹ میں اگست 2013 ءکو تنخواہ بھی آئی۔ عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم کسی چیز کو ناقابلِ تردید سچ نہیں کہہ رہے۔ آپ جے آئی ٹی رپورٹ میں کمی یا کوتاہیاں ٹرائل کورٹ میں اٹھائیں۔ احتساب عدالت میں گواہیاں اور جرح ہو گی۔ کیا آپ استدعا کررہے ہیں کہ جے آئی ٹی کو دوبارہ زندہ کرکے رپورٹ مکمل کرنے کا کہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ ریفرنس کا معاملہ بھی ہم چیئرمین نیب پر چھوڑ دیتے؟ آپ چیئرمین نیب کا بیک گراونڈ اور کنڈکٹ بھی ذہن میں رکھیں۔
اس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عدالت نیب کو قانون کے مطابق تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔ آپ نے تو بچوں پر بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بچہ کوئی نہیں ہے۔ وہ سب بچوں والے ہیں۔
بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اگر نیب کام کرتا تو کیس سپریم کورٹ میں نہ آتا۔ ہر جج نے اپنے فیصلے میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کیا کیا ہوا، دہرانا نہیں چاہتا۔
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے کبھی کسی کو ملزم نامزد کرکے مقدمہ درج کرنے کا نہیں کہا۔ عدالت صرف حکم دیتی ہے کہ تحقیقات کی جائیں اور قصوروار کے خلاف مقدمہ کیا جائے۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 9 سی کا کیس ہمیشہ ہی نامزد ملزمان کے خلاف ہوتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ایک دن میں جے آئی ٹی رپورٹ پر ریفرنس فارغ ہو جائے گا۔ جس پر عدالت نے واضح کیا کہ پھر مسئلہ کیا ہے؟ جائیں اور فارغ کرائیں۔ لیکن مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو پیغام دے دیں کہ کیس موخر نہیں کیا جائے گا۔
پاناما لیکس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے نگراں جج کی تقرری پر نوازشریف کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ مخصوص ٹرائل کی نگرانی کے لیے کبھی جج تعینات نہیں کیا گیا۔ صرف نگراں جج ہوتے ہیں لیکن مخصوص کیس کے لیے تعیناتی نہیں ہوتی۔ صرف مانیٹرنگ ہوتی ہے، سپروائزری نہیں ہوتی۔
عدالت نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نگراں جج کی تعیناتی کوئی نئی بات نہیں۔ احتساب عدالتوں کے لیے بھی نگراں جج ہوتے ہیں۔
عدالت نے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ شیخ لیاقت حسین کیس میں نگراں جج تعینات کیا گیا تھا جب کہ پنجاب کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں بھی نگراں جج لگایا گیا۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جب بھی نواز شریف کے حقوق متاثر ہوئے، عدالت نے ریسکیو کیا۔ ٹرائل میں زیادتی ہوئی تو عدالت ریسکیو کرے گی۔ یہ نہ کہیں کہ سپریم کورٹ مدعی بن گئی۔ میڈیا میں عدالت کے خلاف مہم کو نوازشریف اور اسحاق ڈار نے لیڈ کیا۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ ہم پر یقین کریں، سڑکوں پر نہیں۔
جمعرات کی سماعت میں خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔
اپنے ابتدائی دلائل میں شاہد حامد نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔ اسحاق ڈار کے خلاف جے آئی ٹی کو تحقیقات کا نہیں کہا گیا تھا۔
اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 90 لاکھ کے اثاثے 900 لاکھ کے ہوئے تو حساب مانگا گیا۔ جو تین خطوط لگائے گئے ان پر عرب خلیفہ کا نام بھی غلط ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ معاملہ سامنے آنے پر بھی عدالت آنکھیں بند رکھتی۔ پندرہ سال میں 91 گنا اضافے پر عدالت خاموش رہتی؟
بعد ازاں سماعت جمعے تک ملتوی کردی گئی۔ اسحاق ڈار کے وکیل آئندہ سماعت پر بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔