رسائی کے لنکس

عسکریت پسندوں کی میتیں تدفین کے لیے لواحقین کے حوالے کیے جانے کا مطالبہ


فائل
فائل

بھارتی فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں نے، جن میں مقامی پولیس کا شورش مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ پیش پیش ہے، نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں اور ان کے فعال حامیوں کے خلاف کارروائیاں مزید تیز کر دی ہیں، جنہیں عہدیدار ''دہشت گردوں کے ساتھی اور گراونڈ ورکرز'' گردانتے ہیں۔

سیکیورٹی فورسز کے ان آپریشنز کے دوران گزشتہ دو ہفتے میں 24 اور اس سال اب تک 132 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

جموں و کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ اسے متنازع علاقے میں تین دہائیوں سے جاری شورش کے خلاف جاری مہم کو ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے، امن کی بحالی کی کارروائی بتایا ہے۔

سری نگر میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ یہ خوشی کا مقام ہے کہ (عسکریت پسندوں کے خلاف) آپریشنز اب باقاعدگی کے ساتھ جاری ہیں، جن میں بہت ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

اس دوران، شورش کو دبانے کے لئے 'سرگرم سیکیورٹی گرڈ کی پالیسی' کے تحت ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی میتیں ان کے رشتے داروں کو سونپنے کے بجائے پولیس خود اُن کے آبائی علاقوں سے دور ایسے قبرستانوں میں خاموشی کے ساتھ دفنا دیتی ہے، جہاں عمومی طور پر اس طرح کے واقعات میں مارے جانے والے غیر ملکی یا غیر شناخت شدہ عسکریت پسندوں کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مقامی عسکریت پسندوں کی میتوں کو ان کے لواحقین کے حوالے نہ کرنے کا فیصلہ کرونا وائرس کے پیش نظر اس لیے لیا گیا، تاکہ ان کی تجہیز و تکفین میں لوگ بڑی تعداد میں شریک نہ ہوں، جیسا کہ ان کی طرف سے منع کے باوجود اپریل کے شروع میں شمال مغربی ضلع بارہمولہ میں ہوا تھا۔

انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا جب تک کرونا وائرس ختم نہیں ہوجاتا، ہم لوگ (نعش لواحقین کو) نہیں دیں گے۔ تاہم، انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کو سرحدی اضلاع کپوارہ اور بارہمولہ اور شمالی ضلع گاندربل کے سونہ مرگ علاقے میں دفنانے سے پہلے طبی اور قانونی لوازمات، جن میں ڈی این اے نمونے حاصل کرنا بھی شامل ہے، پورا کرتی ہے۔

لیکن، حکومت کے اس فیصلے نے مقامی آبادی میں ہیجانی کیفیت پیدا کردی ہے، جسے سنگدلانہ اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔

اکیس جون کو سری نگر کے زونی مر علاقے میں ہونے والی ایک جھڑپ کے دوران جن تین مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا تھا اُن میں شکور فاروقی نامی ایک نو عمر لڑکا بھی شامل تھا۔ شکور کے والد فاروق احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جھڑپ صبح کے وقت ہوئی اور اس سے پہلے ایک نجی مکان میں محصور ان عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈال کر خود کو حکام کے حوالے کرنے کی پیشکش کی گئی۔ بقول ان کے، لیکن ان بچوں نے پولیس کی سنی اور نہ ہماری۔ انہوں نے خود سپردگی کی پیشکش ٹھکراتے ہوئے لڑنے کو ترجیح دی۔

فاروق احمد نے کہا کہ پولیس نے ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کی لاشیں لواحقین کو سونپنے سے انکار کیا۔ ان کی اہلیہ گلشن فاروق نے بتایا کہ ''انہوں (پولیس حکام) نے میرے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا، جو کسی اور ماں کے ساتھ نہیں ہونا چاہیئے''۔

شکور کے چچا، محمد مقبول کا کہنا تھا ہم بھی اپنا فرض پورا کر لیتے۔ یہ دیکھتے کہ ہمارے بچے کو کیسے دفنایا جاتا ہے، جس سے ہمیں تسلی ہوتی، لیکن انہوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت کا مارے جانے والے عسکریت پسندوں اور شہریوں کی نعشیں اُن کے لواحقین کے حوالے نہ کرنا قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹیز کے عہدیدار، خرم پرویز نے کہا ہے یہ مقامی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بقول ان کے، ''اگر کوئی شخص مرجاتا ہے، عسکریت پسند ہو یا عام شہری، اُس کی نعش کو حاصل کرنے کا حق اُس کے افرادِ خانہ کا ہے''۔

تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس سارے معاملے کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ ماضی میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلوں میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی تدفین میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی شمولیت اور اس دوران بڑے پیمانے پر بھارت مخالف اور آزادی کے مطالبے میں کئے جانے والے مظاہرے کشمیری عوام کی خواہش اور جذبے کا عکاس سمجھے جاتے تھے اور انہیں آزادی پسند جماعتیں، بالخصوص عسکریت پسند، عوامی مقبولیت کے ثبوت کے طور پر بھی پیش کرتے تھے۔

یونیورسٹی آف کشمیر میں شعبہ قانون اور بین الاقوامی تعلقات کےسابق پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ باضابطہ جنگ ہو رہی ہو یا کسی معاملے پر اختلاف کی وجہ سے مسلح تحریک چلائی جارہی ہو، عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایسے قوانین موجود ہیں جن کے تحت تشدد میں مارے جانے والے شخص کی تدفین اُس کے مذہبی عقیدے کے مطابق ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی یہاں کوئی مارا جاتا تھا، چاہے عسکریت پسند ہو یا عام شہری، اُس کی تدفین میں لوگ بڑی تعداد میں شامل ہوجاتے تھے، جو حکومت کے لئے سبکی کا باعث معاملہ تھا۔ انہوں نے کرونا وبا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لواحقین کو میتیں دینا بند کردی ہیں جو، بقول ان کے، ''سراسر نا انصافی'' ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG