رسائی کے لنکس

پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی قوانین مزید سخت، ترمیمی بل پارلیمنٹ سے منظور


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی سفارشات پر مبنی دو قانونی بل کثرتِ رائے سے منظور کر لیے ہیں۔

جمعرات کو سینیٹ اجلاس میں انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2020 اور اقوامِ متحدہ (سیکیورٹی کونسل) ترمیمی بل 2020 پر رائے شماری کے نتیجے میں انہیں کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

ترمیمی بل کے مطابق جس شخص پر سیکیورٹی کونسل پابندیاں عائد کرے گی اور وہ اس پر عمل نہیں کرتا تو سزا کے علاوہ جرمانے کی شرح ایک کروڑ سے بڑھا کر پانچ کروڑ کر دی گئی ہے۔

ترمیمی بل میں مشتبہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل افراد کے اسلحہ لائسنس منسوخ کرنے کی شق بھی شامل کی گئی ہے جب کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت میں ملوث شخص یا ادارے کو قرض بھی نہیں مل سکے گا۔

مشتبہ دہشت گرد کو قرض دینے والے شخص کو ڈھائی کروڑ جب کہ ادارے کو پانچ کروڑ تک جرمانے کی تجویز بھی ترمیمی بل میں شامل ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے قومی اسمبلی سے ان قانونی بلوں کی منظوری پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم جمعرات کو سینیٹ کے اجلاس میں حکومت نے اپوزیشن کی پیش کردہ ترامیم پر اتفاق کرلیا جس کے بعد یہ ترمیم شدہ بل ایوان بالا سے منظور ہو گئے۔

سینیٹ اجلاس سے قبل ایوانِ بالا کی کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس ہوا، جس میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل اور اقومِ متحدہ سیکورٹی کونسل ترمیمی بل منظور کیے گئے۔

تجزیہ کار ان ترمیمی مسودوں کی منظوری کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل پاکستان کی وائٹ لسٹ میں آنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

ایف اے ٹی ایف کا آئندہ اجلاس اکتوبر میں ہو رہا ہے جس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ ہو گا۔

سینیٹ سے منظوری کے بعد یہ ترمیم شدہ قانونی بل قومی اسمبلی کو دوبارہ بھجوائے گئے اور جمعرات کی سہ پہر ہونے والے ایوانِ زیریں کے مختصر اجلاس میں ان دونوں ترمیم شدہ مسودوں کی منظوری دے دی گئی۔

کیا جدید ٹیکنالوجی منی لانڈرنگ روکنے میں مدد دے سکتی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:20 0:00

'گرے لسٹ میں رہنے کا کوئی جواز نہیں رہا'

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون سازی فوری طور پر ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسفک گروپ کو بھجوائی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کے مطابق پاکستان نے تمام مراحل طے کر لیے ہیں اس لیے کوئی جواز نہیں بنتا کہ پاکستان کو اب بھی گرے لسٹ میں برقرار رکھا جائے۔

وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے بھی کہا کہ اس قانون سازی کے ذریعے ہمیں ایف اے ٹی ایف کی ڈیڈ لائن پر پورا اترنے میں مدد ملے گی۔

خیال رہے کہ پاکستان نے چھ اگست تک ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر عمل درآمد پر مشتمل رپورٹ ایشیا پیسفک گروپ کو بجھوانی ہے جس کی بنیاد پر اکتوبر میں عالمی تنظیم پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا برقرار رکھنے کا فیصلہ کرے گی۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کی جماعت کو انسانی حقوق اور جمہوریت کے اُصولوں کے منافی قانونی شقوں پر اعتراضات تھے جنہیں ترامیم لا کر تحفظ دینے میں کامیاب رہے۔

جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اتفاق رائے سے یہ قانون سازی منظور کرنا چاہتی تھے تاہم اسپیکر نے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو بات کرنے کا موقع نہ دے کر اتفاق رائے کے ماحول کو خراب کیا۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے لیے حزب اختلاف کی جماعتیں طے شدہ کل جماعتی کانفرنس میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گی۔

خیال رہے کہ جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں اسپیکر قومی اسمبلی نے ایف اے ٹی ایف سے متعلقہ دو قانونی بلوں کی منظوری کے دوران حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو بات کرنے کا موقع نہیں دیا تھا اور محض 10 منٹ میں قانون سازی کے بعد اجلاس ملتوی کردیا گیا۔

'پاکستان کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے خطرات کا ادراک نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:17 0:00

پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت ایف اے ٹی ایف کے نام پر 'اکنامک ٹیررازم' بل بھی منظور کرانا چاہتی تھی جو انسانی حقوق اور جمہوریت کی نفی تھا۔

البتہ حکومتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے قانون سازی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔

خیال رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے اپریل میں پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے خلاف 13 فول پروف انتظامات سے متعلق رپورٹ جمع کرانے کے لیے پانچ ماہ کا اضافی وقت دیا تھا۔

ایف اے ٹی ایف نے 21 فروری کو یہ کہا تھا کہ پاکستان کو 27 نکاتی ایکشن پلان کو مکمل کرنے کے لیے دی گئی تمام ڈیڈ لائنز ختم ہو چکی ہیں اور صرف 14 نکات پر بڑے پیمانے پر مکمل عمل ہو سکا جب کہ 13 اہداف پر اب بھی کام ہونا باقی ہے۔

ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تیزی سے اپنے پورے ایکشن پلان کو جون 2020 تک مکمل کرے ورنہ اسے نگرانی کے دائرہ اختیار کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا جسے عام طور پر واچ ڈاگ کی بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG