یورپ میں آنے والے تباہ کن سیلابوں میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 120 ہو گئی ہے۔انسانی زندگیوں کا زیادہ تر نقصان مغربی جرمنی اور بیلجیئم کے علاقوں میں ہوا ہے۔متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں جہاں لاپتا ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے ، جس سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
جرمنی کی ریاست رائن لینڈ پلاٹینٹ کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ ریاست میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 60 ہو گئی ہے جن میں ایک قصبے سن زنگ میں قائم معذور افراد کے رہائشی مرکز میں رہنے والے 12 افراد بھی شامل ہیں۔
اس علاقے میں بہنے والے دریا آہر نے بپھر کر آس پاس کے علاقوں میں تباہی پھیلا مچا دی۔
ہمسایہ ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے عہدے داروں نے 43 ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس تعداد میں اضافہ ہو سکتاہے۔
جرمنی کے بعد سیلابوں کی تباہ کاریوں کا سب سے زیادہ ہدف بننے والا ملک بیلیجئم ہے، جہاں مکان، عمارتیں، سٹرکیں، پل اور لوگوں کا سامان سیلابی ریلوں میں بہہ گیا ہے۔ بیلیجئم کی وزیر داخلہ انیلیز ورلنڈن نے جمعے کے روز میڈیا کو بتایا کہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 18 ہو گئی ہے جب کہ 19 لاپتا افراد کی تلاش جاری ہے۔
ڈنمارک کے قصبے ونلو کے ایک اسپتال سے 200 مریضوں کو ان کے تحفظ کے پیش نظر نکال لیا گیا ہے کیونکہ قریب بہنے والا دریا میں سیلاب آ گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق مغربی یورپ میں بدھ اور جمعرات کو حالیہ طوفان کے باعث دریا اور پانی جمع کرنے کے ذخائر بپھر گئے جو سیلابوں کی وجہ بنے جس نے راتوں رات جرمنی اور بیلجیم کے کئی دیہی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
جرمنی کے مختلف علاقوں میں جمعرات کو سیلابی ریلے سے متعدد سڑکوں کو نقصان پہنچا اور درجنوں مکانات بہہ گئے۔ کئی علاقوں میں گھروں میں پانی داخل ہونے سے مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ریاست رین لینڈ پیلاٹینیٹ کا ایک گاؤں شولڈ سیلابی ریلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں متعدد گھر تباہ اور درجنوں افراد لاپتا ہو گئے ہیں۔ دیہی آبادیوں میں لکڑی یا پرانی اینٹوں سے تعمیر شدہ گھروں کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
سیلاب کے نتیجے میں مختلف سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں، فون اور انٹرنیٹ سروس کی معطل ہے، جس کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ریسکیو آپریشن کے لیے سینکڑوں فوجی کام کر رہے ہیں۔ شولڈ سمیت دیگر بستیوں سے ہیلی کاپٹروں اور کشتیوں کی مدد سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
جرمن ریاست رین لینڈ پیلاٹینینٹ کی گورنر مالو ڈریئر نے ریجنل پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نے پہلے کبھی اس طرح کی تباہی نہیں دیکھی، یہ واقعی ایک تباہ کن صورتِ حال ہے جس میں کئی افراد ہلاک اور لاپتا ہو گئے ہیں اور کئی کو اب بھی خطرے کا سامنا ہے۔"
جرمن چانسلر انگیلا مرکل ان دنوں سرکاری دورے پر امریکہ میں موجود ہیں۔ انہوں نے سیلابوں سے ہونے والے جانی و مالی نقصان پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تمام ہمدردیاں ان متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں جن کے پیارے قدرتی آفت میں جانیں گنوا چکے ہیں۔
دوسری جانب بیلجیم کے شہر لیگ میں بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں جہاں لا وسڈر دریا سیلابی پانی کے باعث بپھر گیا جس نے قریبی علاقوں کو شدید متاثر کیا۔
اسی طرح لیگ شہر کے دریائے میوس میں بھی پانی کی سطح بڑھنے پر جمعرات کو شہر کے میئر نے اعلان کیا کہ دریا کے کناروں پر آباد لوگ فوری طور پر علاقہ خالی کر کے محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں۔
واضح رہے کہ جرمنی اور بیلجیم میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران اب تک ہونے والی اموات اور املاک کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ نہیں لگایا گیا۔
سیلاب کے باعث سڑکیں تباہ ہونے سے کئی قصبوں کا رابطہ منقطع ہے جب کہ لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے وہاں پہنچنا بھی دشوار ہے۔ دونوں ملکوں میں قدرتی آفت کے نتیجے میں مرنے والوں کی بیشتر لاشیں سیلابی ریلے تھمنے کے بعد ملی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ کے کئی علاقوں میں شدید بارشوں اور سیلابوں کے حالہ سلسلے کی وجہ آب و ہوا کی تبدیلی ہے۔ دنیا میں صنعتی ترقی کے بعد سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت شدید موسموں کا سبب بن رہا ہے۔ انہوں نے انتباہ کیا ہے کہ اگر اقوام بالخصوص ترقی یافتہ ملکوں کے کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی نہ کی تو اس صدی کے آخر تک کرہ ارض پر زندگی محال ہو جائے گی۔