شاہ زیب قتل کیس کے مجرم شاہ رخ جتوئی کی معافی کی خبر پر ملک بھر میں ایک نئی بحث جھڑ گئی ہے۔ اس معافی پر ایک جانب شدید شکوک و شبہات کا اظہار کیاجارہا ہے تو دوسری جانب سول سوسائٹی اس فیصلے پر سخت برہم نظر آرہی ہے۔
کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ معافی شاہ زیب کے والدین کی ’مجبوری اور لاچاری‘ ہے۔ اسے قانون میں اپنی مرضی سے ہیر پھیر کرکے یا اس میں سقم پیدا کرکے پیسے کے بل بوتے پر مجرم کو بچانے کی کوشش کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔
شکوک و شبہات ۔۔آخرکیوں؟
اگرچہ شاہ زیب کے والدین اورنگ زیب خان اور عنبرین نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو دیگر تین افراد سمیت قصاص اور دیت کے تحت معاف کردیا ہے، لیکن مقامی میڈیا پچھلے دو دن سے مسلسل یہ خبریں دے رہا ہے کہ ’یہ معافی کروڑوں کی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ شاہ جتوئی پیسہ اور بہت اثر و رسوخ رکھنے والے باپ کا بیٹا ہے جس نے پہلے اورنگ زیب کو ملازمت میں ترقی دلواکر اور اب تقریباً35کروڑ روپے کی ڈیل کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا میں مستقل رہائش دلانے کے عوض اپنے بیٹے کو بچا لیا ہے۔“
تاہم، شاہ زیب کی والدہ عنبرین نے اس قسم کی کسی بھی ڈیل سے انکار کرتے ہوئے بطور ثبوت اپنے پاسپورٹ پیش کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاسپورٹ پر کسی ملک کا کوئی ویزا نہیں لگا۔
پاکستان کے تمام نجی ٹی وی چینلز پر گزشتہ روز سے اس کیس کی مسلسل بازگشت سنائی دے رہی ہے۔’جیو نیوز‘، ’جیو تیز‘، ’ایکسپریس ٹی وی‘ ،’اے آر وائی نیوز‘ اور’ڈان‘ سمیت تقریباً تمام ہی چینلز اس حوالے سے خبریں دے رہے ہیں، جبکہ روزنامہ جنگ، دنیا، نوائے وقت اور ایکسپریس میں بھی یہی صورتحال ہے۔
جیو نیوز نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ اس نے عدالت میں جمع کرائے گئے صلح نامے کی ایک کاپی بھی حاصل کرلی ہے جس کے مطابق عدالت میں مقتول کے والد اورنگ زیب خان، والدہ، دو بہنوں کے علیحدہ علیحدہ حلف نامے جمع کرائے گئے ہیں۔
ٹوئسٹ پہ ٹوئسٹ
شاہ رخ قتل کیس میں شروع ہی سے ٹوئسٹ پر ٹوئسٹ آتے رہے ہیں۔ ان ٹوئسٹس کا جائزہ لینے سے پہلے کیس کے پس منظر پر مزید ایک تفصیلی نظر ڈالنا ضروری ہے۔ قتل کا واقعہ سال 2012ء میں 25دسمبر کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پیش آیا۔ یہ علاقہ درخشاں تھانے کی حدود میں آتا ہے۔ اسی علاقے کا ایک بیس سالہ رہائشی شاہ زیب اپنی بہن کی شادی سے گھر واپس آرہا تھا کہ گھر کے قریب ہی پڑوس میں رہنے والے کچھ لوگوں نے شاہ زیب کی موجودگی میں اس کی دوسری بہن پر فقرے کسے جس پر تلخ کلامی ہوگئی اور بات یہاں تک بڑھی کہ شاہ رخ کے ساتھیوں سراج تالپور، غلام مرتضیٰ لاشاری اورسجاد تالپور کی جانب سے ہونے والی فائرنگ میں شاہ زیب اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
پولیس نے قتل کے الزام میں مذکورہ تینوں افراد کو حراست میں لے لیا۔ لیکن، شاہ رخ جتوئی دبئی فرار ہوگیا۔ شاہ زیب کے والد نے میڈیا پر آکر شاہ رخ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے میں سوشل میڈیا کے ذریعے سول سوسائٹی کے ہزاروں افراد ان کے ساتھ ہوگئے ۔ان کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو با اثرافراد کی سرپرستی میں دبئی فرار کرا دیا گیا ہے۔
جب کوشش کے باوجود شاہ رخ گرفتار نہ ہوا تو چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار چوہدری نے اس معاملے کا از خود نوٹس لے لیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس حرکت میں آئی اور ملزم شاہ رخ جتوئی نے خود کو دبئی میں پولیس کے حوالے کردیا۔
ملزمان کیخلاف7 مارچ 2013 کو فرد جرم عائد کی گئی لیکن کہانی میں ٹوئسٹ لاتے ہوئے ملزم شاہ رخ جتوئی کو نابالغ قرار دیکر سزائے موت سے بچانے کی کوشش کی گئی لیکن میڈیکل بورڈ نے شاہ رخ جتوئی کو بالغ قرار دے دیا۔
رواں سال جون کی سات تاریخ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج غلام مصطفی میمن نے قتل کا جرم ثابت ہونے پر دو مرکزی ملزمان شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپورکو سزائے موت اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی، جبکہ شریک ملزمان سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو بھی مجرم قرار دیتے ہوئے عمرقید اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا ملی۔
گزشتہ روز یعنی 9 ستمبر کو شاہ زیب کے والدین کی جانب سے ملزمان کو معاف کرنے کی خبر سامنے آگئی جس پر سول سوسائٹی ، میڈیا اور یہاں تک کہ عام لوگوں کو بھی یقین نہیں۔ اسے بھی بااثر اور پیسے والے ملزمان کی جانب سے ایک” شاطرانہ چال“ قرار دیا جارہا ہے جس کا مقصد جنوئی کو سزا سے بچانا ہے۔
سول سوسائٹی کی برہمی ۔۔ سبب کیا ہے؟
شاہ زیب کے ایک قریبی دوست اور ان کے قتل کے دو دن بعد انصاف کے حصول کے لئے ”فیس بک“ پر ’ان میموری آف شاہ زیب خان‘ کے عنوان سے پیج بنا کر سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز کرنے والے عمر مختار شاہ زیب کے گھر والوں کے فیصلے سے بہت دل برادشتہ ہیں۔ میڈیا سے بات چیت میں عمر مختار کا کہنا ہے ”شاہ زیب کا قتل تو پچھلے سال ہوالیکن ہمارے لئے اس کی موت آج ہوئی ہے۔ میری، شاہ زیب کے دوسرے دوستوں کی اپنے دوست کے لئے کی جانے والی تمام کوششیں ضائع چلی گئیں جس کا ہم سب کو بے انتہا دکھ ہے۔اگرشاہ زیب کی فیملی کویہی کرنا تھا تو ہمیں بتا دیتے ، ہم احتجاج شروع ہی نہ کرتے۔“
شاہ زیب کے فیس بک پیج پر 170,000سے زیادہ ممبرز تھے۔ عمر مختار نے شاہ زیب کے قاتلوں کو سزا دلانے کے لئے 18احتجاجی مظاہرے کئے جن میں سیکٹروں نوجوان شریک ہوئے۔ ان مظاہروں میں سے 11پاکستان اور 7امریکا ، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں کئے گئے۔
شاہ زیب کے قاتلوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کے لئے سول سوسائٹی بھی پیش پیش تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ زیب کے والدین کے قاتلوں کو معافی کے فیصلے سے سماجی کارکنوں نے مایوسی کا اظہار کیا۔ مشہور وکیل اور سماجی کارکن حنا جیلانی کہتی ہیں کہ اس طرح کے فیصلوں سے معاشرے کے بااثر اور طاقت ور افراد میں جرم کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
سیاست دان اور مقتول شاہ زیب کے انکل نبیل گبول نے ٹوئٹر پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ نبیل گبول نے شاہ زیب کی فیملی کے فیصلے کو شرمناک قرار دیا۔
شاہ زیب قتل کیس میں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں میڈیا نے بھی ایکٹو کردار ادا کیا اور میڈیا کی نمایاں کوریج سے شاہ زیب کے کیس کو مضبوطی ملی۔ تمام چینلز کا خیال ہے کہ قاتلوں کی معافی کے پیچھے پیسے کی ’چمک‘ سے زیادہ دھونس ،دھمکی اور دباو کا عمل دخل ہے۔ شاہ زیب کی فیملی کو دھمکیوں اور دباوٴ سے یہ فیصلہ کرنا پڑا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق شاہ زیب کی فیملی نے شاہ رخ جتوئی اور دیگر مجرموں کے خاندان والوں سے دبئی میں آوٴٹ آف کورٹ سیٹل منٹ یعنی عدالت سے باہر صلح کر لی اور اس کے عوض انہوں نے 35کروڑ روپے اور آسٹریلیا کی شہریت حاصل کی۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ شاہ زیب کی فیملی اسی ہفتے ملک چھوڑ کر آسٹریلیا روانہ ہونے والے تھے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں
معافی کا یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں سزاوٴں کے خلاف ملزمان کی اپیل کے ساتھ زیر سماعت آئے گا اور اس پر عمل درآمد ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ہی ہوسکے گا۔ ماہرین کے مطابق انسداد دہشت گردی ایکٹ 7 کے تحت مجرموں کو نہ تو رہائی ہی مل سکتی ہے اور نہ ہی قتل کیس میں معافی ۔کیوں کہ دہشت گردی کا مقدمہ اس طرح ختم نہیں کیا جاسکتا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے ایکٹ 7کے تحت کورٹ دونوں خاندانوں میں ہونے والی ڈیل مسترد بھی کرسکتی ہے۔
کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ معافی شاہ زیب کے والدین کی ’مجبوری اور لاچاری‘ ہے۔ اسے قانون میں اپنی مرضی سے ہیر پھیر کرکے یا اس میں سقم پیدا کرکے پیسے کے بل بوتے پر مجرم کو بچانے کی کوشش کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔
شکوک و شبہات ۔۔آخرکیوں؟
اگرچہ شاہ زیب کے والدین اورنگ زیب خان اور عنبرین نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو دیگر تین افراد سمیت قصاص اور دیت کے تحت معاف کردیا ہے، لیکن مقامی میڈیا پچھلے دو دن سے مسلسل یہ خبریں دے رہا ہے کہ ’یہ معافی کروڑوں کی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ شاہ جتوئی پیسہ اور بہت اثر و رسوخ رکھنے والے باپ کا بیٹا ہے جس نے پہلے اورنگ زیب کو ملازمت میں ترقی دلواکر اور اب تقریباً35کروڑ روپے کی ڈیل کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا میں مستقل رہائش دلانے کے عوض اپنے بیٹے کو بچا لیا ہے۔“
تاہم، شاہ زیب کی والدہ عنبرین نے اس قسم کی کسی بھی ڈیل سے انکار کرتے ہوئے بطور ثبوت اپنے پاسپورٹ پیش کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاسپورٹ پر کسی ملک کا کوئی ویزا نہیں لگا۔
پاکستان کے تمام نجی ٹی وی چینلز پر گزشتہ روز سے اس کیس کی مسلسل بازگشت سنائی دے رہی ہے۔’جیو نیوز‘، ’جیو تیز‘، ’ایکسپریس ٹی وی‘ ،’اے آر وائی نیوز‘ اور’ڈان‘ سمیت تقریباً تمام ہی چینلز اس حوالے سے خبریں دے رہے ہیں، جبکہ روزنامہ جنگ، دنیا، نوائے وقت اور ایکسپریس میں بھی یہی صورتحال ہے۔
جیو نیوز نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ اس نے عدالت میں جمع کرائے گئے صلح نامے کی ایک کاپی بھی حاصل کرلی ہے جس کے مطابق عدالت میں مقتول کے والد اورنگ زیب خان، والدہ، دو بہنوں کے علیحدہ علیحدہ حلف نامے جمع کرائے گئے ہیں۔
ٹوئسٹ پہ ٹوئسٹ
شاہ رخ قتل کیس میں شروع ہی سے ٹوئسٹ پر ٹوئسٹ آتے رہے ہیں۔ ان ٹوئسٹس کا جائزہ لینے سے پہلے کیس کے پس منظر پر مزید ایک تفصیلی نظر ڈالنا ضروری ہے۔ قتل کا واقعہ سال 2012ء میں 25دسمبر کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پیش آیا۔ یہ علاقہ درخشاں تھانے کی حدود میں آتا ہے۔ اسی علاقے کا ایک بیس سالہ رہائشی شاہ زیب اپنی بہن کی شادی سے گھر واپس آرہا تھا کہ گھر کے قریب ہی پڑوس میں رہنے والے کچھ لوگوں نے شاہ زیب کی موجودگی میں اس کی دوسری بہن پر فقرے کسے جس پر تلخ کلامی ہوگئی اور بات یہاں تک بڑھی کہ شاہ رخ کے ساتھیوں سراج تالپور، غلام مرتضیٰ لاشاری اورسجاد تالپور کی جانب سے ہونے والی فائرنگ میں شاہ زیب اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
پولیس نے قتل کے الزام میں مذکورہ تینوں افراد کو حراست میں لے لیا۔ لیکن، شاہ رخ جتوئی دبئی فرار ہوگیا۔ شاہ زیب کے والد نے میڈیا پر آکر شاہ رخ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے میں سوشل میڈیا کے ذریعے سول سوسائٹی کے ہزاروں افراد ان کے ساتھ ہوگئے ۔ان کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو با اثرافراد کی سرپرستی میں دبئی فرار کرا دیا گیا ہے۔
جب کوشش کے باوجود شاہ رخ گرفتار نہ ہوا تو چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار چوہدری نے اس معاملے کا از خود نوٹس لے لیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس حرکت میں آئی اور ملزم شاہ رخ جتوئی نے خود کو دبئی میں پولیس کے حوالے کردیا۔
ملزمان کیخلاف7 مارچ 2013 کو فرد جرم عائد کی گئی لیکن کہانی میں ٹوئسٹ لاتے ہوئے ملزم شاہ رخ جتوئی کو نابالغ قرار دیکر سزائے موت سے بچانے کی کوشش کی گئی لیکن میڈیکل بورڈ نے شاہ رخ جتوئی کو بالغ قرار دے دیا۔
رواں سال جون کی سات تاریخ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج غلام مصطفی میمن نے قتل کا جرم ثابت ہونے پر دو مرکزی ملزمان شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپورکو سزائے موت اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی، جبکہ شریک ملزمان سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو بھی مجرم قرار دیتے ہوئے عمرقید اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا ملی۔
گزشتہ روز یعنی 9 ستمبر کو شاہ زیب کے والدین کی جانب سے ملزمان کو معاف کرنے کی خبر سامنے آگئی جس پر سول سوسائٹی ، میڈیا اور یہاں تک کہ عام لوگوں کو بھی یقین نہیں۔ اسے بھی بااثر اور پیسے والے ملزمان کی جانب سے ایک” شاطرانہ چال“ قرار دیا جارہا ہے جس کا مقصد جنوئی کو سزا سے بچانا ہے۔
سول سوسائٹی کی برہمی ۔۔ سبب کیا ہے؟
شاہ زیب کے ایک قریبی دوست اور ان کے قتل کے دو دن بعد انصاف کے حصول کے لئے ”فیس بک“ پر ’ان میموری آف شاہ زیب خان‘ کے عنوان سے پیج بنا کر سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز کرنے والے عمر مختار شاہ زیب کے گھر والوں کے فیصلے سے بہت دل برادشتہ ہیں۔ میڈیا سے بات چیت میں عمر مختار کا کہنا ہے ”شاہ زیب کا قتل تو پچھلے سال ہوالیکن ہمارے لئے اس کی موت آج ہوئی ہے۔ میری، شاہ زیب کے دوسرے دوستوں کی اپنے دوست کے لئے کی جانے والی تمام کوششیں ضائع چلی گئیں جس کا ہم سب کو بے انتہا دکھ ہے۔اگرشاہ زیب کی فیملی کویہی کرنا تھا تو ہمیں بتا دیتے ، ہم احتجاج شروع ہی نہ کرتے۔“
شاہ زیب کے فیس بک پیج پر 170,000سے زیادہ ممبرز تھے۔ عمر مختار نے شاہ زیب کے قاتلوں کو سزا دلانے کے لئے 18احتجاجی مظاہرے کئے جن میں سیکٹروں نوجوان شریک ہوئے۔ ان مظاہروں میں سے 11پاکستان اور 7امریکا ، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں کئے گئے۔
شاہ زیب کے قاتلوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کے لئے سول سوسائٹی بھی پیش پیش تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ زیب کے والدین کے قاتلوں کو معافی کے فیصلے سے سماجی کارکنوں نے مایوسی کا اظہار کیا۔ مشہور وکیل اور سماجی کارکن حنا جیلانی کہتی ہیں کہ اس طرح کے فیصلوں سے معاشرے کے بااثر اور طاقت ور افراد میں جرم کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
سیاست دان اور مقتول شاہ زیب کے انکل نبیل گبول نے ٹوئٹر پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ نبیل گبول نے شاہ زیب کی فیملی کے فیصلے کو شرمناک قرار دیا۔
شاہ زیب قتل کیس میں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں میڈیا نے بھی ایکٹو کردار ادا کیا اور میڈیا کی نمایاں کوریج سے شاہ زیب کے کیس کو مضبوطی ملی۔ تمام چینلز کا خیال ہے کہ قاتلوں کی معافی کے پیچھے پیسے کی ’چمک‘ سے زیادہ دھونس ،دھمکی اور دباو کا عمل دخل ہے۔ شاہ زیب کی فیملی کو دھمکیوں اور دباوٴ سے یہ فیصلہ کرنا پڑا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق شاہ زیب کی فیملی نے شاہ رخ جتوئی اور دیگر مجرموں کے خاندان والوں سے دبئی میں آوٴٹ آف کورٹ سیٹل منٹ یعنی عدالت سے باہر صلح کر لی اور اس کے عوض انہوں نے 35کروڑ روپے اور آسٹریلیا کی شہریت حاصل کی۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ شاہ زیب کی فیملی اسی ہفتے ملک چھوڑ کر آسٹریلیا روانہ ہونے والے تھے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں
معافی کا یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں سزاوٴں کے خلاف ملزمان کی اپیل کے ساتھ زیر سماعت آئے گا اور اس پر عمل درآمد ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ہی ہوسکے گا۔ ماہرین کے مطابق انسداد دہشت گردی ایکٹ 7 کے تحت مجرموں کو نہ تو رہائی ہی مل سکتی ہے اور نہ ہی قتل کیس میں معافی ۔کیوں کہ دہشت گردی کا مقدمہ اس طرح ختم نہیں کیا جاسکتا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے ایکٹ 7کے تحت کورٹ دونوں خاندانوں میں ہونے والی ڈیل مسترد بھی کرسکتی ہے۔