ڈراما سیریل ’’ یہ میری لائف ہے‘‘ سے شہرت پانے والی بالی ووڈ اداکارہ شمع سکندر نے وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصي گفتگو میں بتایا کہ زندگی میں پل پل امتحانات سے گزرنے کے باوجود وہ خود کو اس لیے خوش قسمت سمجھتی ہیں کیونکہ ان کے پیچھے ایک مضبوط ستون کی طرح ان کے والد کھڑے رہے ،جنہوں نے اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے سارے خاندان کی مخالفت کے باوجود اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لیا، راجستھان میں اپنا گھر بار چھوڑا اور پردیس کی صعوبتوں کہ گلے لگا لیا۔
شمع بتاتی ہیں کہ ممبئی میں زندگی کبھی آسان نہ تھی۔ کئی بار بھوکے پیٹ سونا پڑا۔ رشتے داروں کی باتیں سہیں لیکن اپنے والد کا خواب پورا کرنے کے لیے انہوں نے 13 سال کی عمر ہی سے کام کا آغاز کر دیا۔
آج نہ صرف وہ ایک کامیاب اداکارہ ہیں بلکہ ایک پروڈکشن ہاؤس’’ شمع سکندر فلمز‘‘کی مالک بھی ہیں۔ اسی بینر تلے وہ جلد ہی اپنی شارٹ فلم ’’ اب دل کی سن ‘‘ ریلز کرنے جا رہی ہیں ۔
شمع نے 1996 میں فیروز خان کی ہدایت کاری میں بنی فلم’’ پریم اگن ‘‘سے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ وکرم بھٹ کی سیریز ’’ مایا ‘‘میں وہ مرکزی کردار میں سامنے آئیں۔ فلم’’ عرضی ‘‘اور شارٹ فلم’’ سیکس ہالک ‘‘میں بھی اہم کردار نبھائے۔ یش راج پروڈکشنز کی سیریل ’’سیون‘‘ اور بچوں کے نمبر ون شو’’ بال ویر ‘‘میں اہم کردار ادا کئے۔ عامر خان اور منیشا کوئیرالہ کے مرکزی کرداروں سے سجی فلم’’ من‘‘میں بھی جلوہ گر ہوئیں۔ اس کے علاوہ شمع نے متعدد معروف گلوکاروں کی میوزک ویڈیوز میں ماڈلنگ کے ساتھ ساتھ کئی ریئلٹی شوز کی میزبانی بھی کی اور بھارت کی ورسٹائل اداکاراؤں میں شامل ہو گئیں۔
شمع نے وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ سفر کی ابتدا میں انہیں جس بری طرح رد کیا گیا اور ان کی عزت نفس کو کچلا گیا۔ انہوں نے تبھی سوچ لیا تھا کہ وہ اپنا پروڈکشن ہاؤس بنائیں گی اور کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں ہونے دیں گی اور خاص طور پر نئے آنے والوں کو اس تکلیف سے بچائیں گی جس کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔
شمع نے اپنے کیریئر میں مختلف کردار نبھائے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک جیسے کردار ادا کرتے ہوئے انہیں ایسا لگتا ہے جیسے بطور اداکارہ ان کی نشوونما رک گئی ہو۔ لیکن وہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ جب آپ کا کوئی کردار بہت پسند کیا جاتا ہے تو آپ کو اسی سے ملتے جلتے کردار وں ہی کی پیش کش کی جاتی ہے جس سے باہر نکلنے کے لیے آپ کو جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور لوگوں کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ آپ اس سے مختلف کردار بھی بہت بہترین طریقے سے نبھا سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ہر نئے پراجیکٹ کو وہ اتنی ہی سنجید گی سے لیتی ہیں جیسے یہ ان کی زندگی کا سب سے پہلا یا آخری پراجیکٹ ہو۔
اداکاری کا شعبہ شمع کے لیے ان کے والد نے چنا۔ وہ اس سے کتنی مطمئن ہیں ، انہوں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا آیا جب انہوں نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ وہ اداکارہ تو ابا کی وجہ سے بنیں ، مگر وہ خود کیا بننا چاہتی تھیں ؟ اس سوال کی تلاش میں وہ ڈپریشن کا شکار بھی ہوئیں لیکن آخر شمع کے اندر جھانکنے کے بعد اس سوال کا جواب مل ہی گیا، اور جواب تھا کہ ہاں وہ بھی اداکارہ ہی بننا پسند کرتیں۔ وہ کہتی ہیں کب میری اور ابا کی خواہش ایک ہوئی یا میرے دل کے نہاں خانوں میں چھپی اداکاری کی خواہش کب ابا کے خوابوں میں ڈھل گئی پتا ہی نہیں چلا۔
شمع کو بہترین کارکردگی کے لیے متعدد بار ایوارڈز کے لیے نامزدگی ملی ۔ انہوں نے 2004 میں بہترین نئے چہرے کا اعزاز جیتا اور اسی سال گریٹ فیس آف دی ایئر کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔ سن 2005 میں بیسٹ فیس کا اور اسی سال بیسٹ ایکٹریس کا کریٹکس چوائس اعزازبھی جیتا۔