پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہان خواتین کو مردوں کے برابر حقوق حاصل نہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو کم تر تصور کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود بعض خواتین ایسی بھی ہیں جنہوں نے ایسے شعبوں کا انتخاب کیا ہے جو صرف مردوں کے لئے مخصوص تصور کیے جاتے ہیں۔
انہی میں سے ایک شمیم اختر بھی ہیں، جنہوں نے اپنی غربت کی وجہ سے ٹرک چلانا شروع کیا۔
راولپنڈی میں رہائش پذیر شمیم اختر نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد اس کام کا آغاز کیا۔ اس قدامت پسند معاشرے میں ایک طرف تو خواتین کا گھر سے باہر نکلنا اور پھر اس قسم کے شعبے کا انتخاب کرنا اور بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔
55سالہ شمیم اختر نے اردو وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپنی غربت کی وجہ سے میں نے ٹرک چلانا شروع کیا۔
اپنی زندگی کے نشیب و فراز بیان کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ ’’سب سے پہلے میں نے اپنی غربت کو ختم کرنے کے لئے کڑھائی سلائی کا کام سیکھنا شروع کیا۔ گاؤں میں ایک سعودی عرب کا ایک ادارہ تھا جس کی مدد سے میں نے سلائی کڑھائی سیکھی، اور پھر وہاں پر میں نے آٹھ سال نوکری کی‘‘۔
بعدازاں، انہوں نے اپنے سلائی کڑھائی کے سینٹر بند کر دیے اور وہاں پر تعلیمی ادارہ کھولا جس سے میری نوکری ختم ہوگئی۔
اُنھوں نے بتایا، ’’چونکہ میں زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھی، اس لیے میں نے سوچا کہ اب کیا کروں، کیونکہ گھر کا گزارا بہت مشکل تھا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ پھر میں نے 2007ء میں نے ڈرائیونگ سیکھی جس کے بعد میں نے ایک ڈرائیونگ اسکول کھول لیا۔ میں نے ایک پرانی گاڑی لی اور ڈرائیونگ سکھانا شروع کر دیا‘‘۔
شمیم اختر کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد، اُنھوں نے ایل ٹی وی کی ٹریننگ حاصل کی اور لائسنس بھی لیا، جس سلسلے میں اُنھوں نے یہ سب کچھ سرکاری اداروں سے سیکھا۔
اور اپنی فیس قرضہ لے کر دیتی تھی۔ اسکے بعد میں نے 2013ء میں ایچ ٹی وی کا کورس ٹرک چلانے کے لئے کیا؛ اور یہ کہ ’’اب میں ٹرک چلاتی ہوں جو میرا اپنا نہیں ہے بلکہ کرائے پر لے کر چلاتی ہوں‘‘۔
شمیم اختر کو نہ صرف پاکستان میں پہلی خاتون ٹرک ڈرائیور کا اعزاز حاصل ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں ایسی لاتعداد خواتین کے لئے ایک مثال بھی ہے جو غربت سے نکلنے اور اپنے کنبے کی باعزت طریقے سے کفالت کر سکتی ہے۔ مگر، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کی خواتین کو معاشرے کے ہر طبقے کی طرف سے حوصلہ افزائی کی جائے۔