رسائی کے لنکس

جج شوکت صدیقی برطرفی کیس؛ جنرل باجوہ سمیت سابق فوجی افسران کو فریق بنانے کی درخواست


 جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج تھے اور اپنے سخت بیانات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج تھے اور اپنے سخت بیانات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے اپنے برطرفی کیس میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق آئی ایس آئی سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید اور تین ریٹائرڈ بریگیڈیئرز کو فریق بنانے کی درخواست دائر کر دی ہے۔

شوکت عزیز صدیقی نے سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کانسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو بھی فریق بنانے کی استدعا کی ہے۔

شوکت عزیز صدیقی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے برطرفی کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے کی۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج تھے اور اپنے سخت بیانات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔

جولائی 2018 کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں تقریر کے دوران انہوں نے پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ان پر خفیہ ادارے کی طرف سے فیصلوں کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

اس بارے میں اعلیٰ عدلیہ نے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر انہیں بطور جج ہٹا دیا تھا۔

جمعرات کو سماعت کے دوران کیا ہوا؟

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان سے کہا کہ ماضی میں یہ کیس لگتا رہا لیکن جن ججز نے یہ مقدمہ سنا ان میں سے کوئی بھی اس بینچ میں شامل نہیں ہے۔ لہذا آپ کو شروع سے اس کیس کو بتانا ہو گا۔

اس پر حامد خان نے شوکت عزیز صدیقی کو جاری ہونے والی شوکاز نوٹسز سے کیس کا آغاز کر دیا۔

حامد خان نے سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی راولپنڈی بار میں تقریر پڑھ کر سنائی جس میں انہوں نے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے بارے میں الزام عائد کیا کہ فیض حمید ان کے گھر آئے اور الیکشن سے پہلے نواز شریف اور مریم نواز کی درخواستوں کو نہ سننے کا کہا تھا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے چھ جولائی 2018 میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو 10 سال جب کہ اُن کی بیٹی مریم نواز کو سات سال اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک برس قید کی سزا سنائی تھی۔

سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی جب کہ اسی ماہ 25 جولائی کو ملک میں عام انتخابات ہوئے تھے۔

'ادارے نہیں لوگ بُرے ہوتے ہیں'

دورانِ سماعت، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا؟ حامد خان نے بتایا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کر رہی تھیں اس لیے فریق نہیں بنایا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یا کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں، ادارے نہیں لوگ بُرے ہوتے ہیں۔ ملک کی تباہی اس وجہ سے ہوتی کہ شخصیات کے بجائے اداروں کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ اداروں کو لوگ چلاتے ہیں۔

وکیل حامد خان نے بتایا کہ فیض حمید کو فریق بنانے کا جوڈیشل کونسل نے موقع نہیں دیا جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اب تو آپ کے پاس موقع ہے اب کیوں نہیں فریق بنا رہے؟ کسی کی پیٹھ پیچھے الزام نہیں لگانے دیں گے، اس اعتبار سے تو سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ درست ہے۔ اس پر حامد خان نے کہا کہ ہمیں فیض حمید کو فریق بنانے پر اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فریق بنا کر ہم پر احسان نہ کریں، اداروں پر الزام نہیں لگانے دیں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ شوکت عزیز صدیقی نے الزام ہائی کورٹ چیف جسٹس پر لگایا تھا لیکن جسٹس انور کانسی کو بھی فریق نہیں بنایا گیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا فیض حمید کو کسی اور درخواست گزار نے فریق بنایا ہے؟ وکیل بار کونسل نے کہا کہ فیض حمید کو نہیں آئی ایس آئی کو فریق بنایا ہے۔

عدالت نے اس بارے میں سماعت جمعے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ اگر فریق بنانے کی درخواست آج دائر کرتے ہیں تو کل نوٹس جاری کر دیں گے جس پر حامد خان نے آج ہی فیض حمید اور انور کانسی کو فریق بنانے کی درخواست دائر کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔

بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید سمیت تین ریٹائر بریگیڈیئرز اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور کاسی اور اس وقت کے رجسٹرار ارباب عارف کو فریق بنانے کی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرا دی گئی۔

البتہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کیس کئی مرتبہ ڈی لسٹ ہوا جس کے بعد گزشتہ ہفتے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا اور اب اس کیس کی سماعت ہوئی جو جمعے کے روز تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG