سندھ ہائی کورٹ نے اسپیکر آغا سراج درانی کی کرپشن کیس میں ضمانت منطور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ آغا سراج درانی کے خلاف کراچی کی احتساب عدالت میں آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس زیر سماعت ہے جس میں انہیں رواں سال فروری میں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے آغا سراج درانی، اور ان کے بھائی سمیت نو ملزمان کی ریفرنس میں ضمانت کی درخواست پر فیصلہ 26 نومبر کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد محفوظ کر لیا تھا۔
نیب نے ریفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ آغا سراج درانی نے اپنے ظاہر کردہ آمدنی سے زائد کے اثاثے بنا رکھے ہیں جن کی مالیت 1 ارب 61 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے جو ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔ نیب کے مطابق یہ اثاثے پوشیدہ رکھنے کے لئے بے نامی جائیدادوں کی صورت میں رکھے گئے تھے۔
دوران سماعت آغا سراج درانی کا موقف یہ تھا کہ انہیں یہ جائیداد اپنے خاندان سے ورثے میں ملی ہے، اور جو جائیداد ان کے اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے نام ہے وہی ان کی جائیداد ہے۔ نیب کی جانب سے فرنٹ مینوں کے ذریعے جائیدادیں بنانے کا الزام غلط ہے۔ تاہم نیب کا موقف یہ تھا کہ اگر جائیداد واقعی واراثت میں ملی ہے تو ان کے نام منتقل کیوں نہیں کی گئی۔ نیب کا الزام تھا کہ ریفرنس میں نامز دیگر ملزمان آغا سراج درانی کے فرنٹ مین کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
عدالت نے نیب کی جانب سے آغا سراج درانی کے بینک لاکرز میں مبینہ طور پر پائی گئی 1 کروڑ 25 لاکھ روپے مالیت کے زیورات اور دیگر اشیاء کی قیمت کے تعین کو بھی مشکوک قرار دیا ہے۔ جب کہ نیب کی جانب سے یہ دعویٰ کہ یہ تمام زیوارت 2011 سے 2018 کے درمیان خریدی گئیں، نیب اس کا کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہیں کر سکا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ آغا سراج درانی کے خلاف ہونے والی تحقیقات مکمل اور تفصیلی نہیں ہیں۔ عدالت نے اس پر بھی تعجب کا اظہار کیا ہے کہ نیب کے تفتیشی افسر ایک بار بھی ان جائیدادوں کا بذات خود معائنہ کرنے نہیں گئے۔ بلکہ کراچی میں واقع اپنے دفتر میں بیٹھ کر ہی اپنی پوری تفتیش کی۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ ملزم کے خلاف شک ہونا اور اسے عدالت میں ثابت کرنا دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ اس کیس میں ملزم کے خلاف مزید انکوائری کی ضرورت ہے۔ عدالت نے درخواست ضمانت کے فیصلے میں لکھا ہے کہ کئی بار ملزمان کو کمزور تفتیش کا فائدہ ملتا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے دور کنی بینچ نے قرارد یا ہے کہ پراسیکوشن نے اپنے دلائل درخواست گزار(آغا سراج درانی ) کی پروفائل کی بنیاد رکھے۔ تاہم عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ کسی کے بارے میں خیال اور مفروضے، حقیقت سے زیادہ مضبوط ہو سکتے ہی، مگر عدالتیں ایسے خیالات اور مفروضوں پر مبنی فیصلے دینے کی بجائے قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی پابند ہیں۔
اسی طرح عدالت نے آغا سراج درانی کی گرفتاری کے لئے جاری کردہ وارنٹ پر بھی سوالات اٹھائے ہیں جس پر کسی اتھارٹی کے دستخط ہی موجود نہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ آغا سراج درانی کو اتنی جلدبازی میں گرفتار کرنا بظاہر بلاجواز لگتا ہے۔
عدالت نے آغا سراج درانی کو ضمانت کا مستحق قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں اب بھی بہت سے نکات ہیں جس پر مزید تفتیش ہونی چائیے۔ عدالت نے آغا سراج درانی کو دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
ادھر دوسری جانب آغا سراج درانی کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس، گرفتاری کے گیارہ ماہ بعد بھی ابتدائی مراحل میں ہے اور ملزمان پر اب تک فرد جرم بھی عائد نہیں ہو سکی ہے۔ جب کہ جس احتساب عدالت میں مقدمہ زیر سماعت ہے وہاں پر کئی ماہ سے جج دستیاب نہ ہونے کے باعث سماعت لنک کورٹ میں ہوتی ہے۔
احتساب عدالت نے آغا سراج درانی کے ساتھ ریفرنس میں نامزد ان کے اہل خانہ کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کا حکم دے رکھا ہے جب کہ اس خاندان کی جائیدادوں کی تفصیلات بھی عدلت نے طلب کر رکھی ہیں۔
آغا سراج درانی پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ میں انتہائی اہم رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ شکار پور سے تعلق رکھنے والے آغا سراج درانی 2013 سے صوبائی اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد انہیں ان کی جماعت نے ایک بار پھر اسپیکر منتخب کرایا۔
ادھر رہائی کے بعد وفاقی حکومت نے گورنر سندھ عمران اسماعیل کے بیرون ملک جانے کے باعث آغا سراج درانی کو قائم مقام گورنر بنائے جانے کا نوٹی فیکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔
آغا سراج درانی نے پرائیویٹ ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ اس سے پہلے بھی انہیں مختلف مقدمات میں پھنسایا جاتا رہا ہے۔ لیکن وہ ان الزامات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
دوران ہفتہ پیپلز پارٹی کے دو رہنماؤں کی ضمانت کی سیاسی اہمیت
ایک ہفتے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری اور اب آغا سراج درانی کی رہائی کو سیاسی پنڈت انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار نذیر لغاری کے بقول پاکستان پیپلز پارٹی اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ چلتا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما کبھی جیلوں میں رہے اور کبھی اقتدار میں رہے ہیں۔ لیکن ان کے بقول اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سیاسی عمل، غیر سیاسی مداخلت سے صاف ہو تو ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کون سی سیاسی جماعت کس مقام پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی عوامی مقبولیت میں کس جگہ کھڑی ہے یہ تو اسی وقت معلوم ہو سکے گا جب ایک شفاف سیاسی ماحول میسر آ سکے گا اور جو غیر سیاسی مداخلت سے پاک ہو گا۔ ان کے خیال میں ایسے میں کامیابی یا ناکامی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
پیپلز پارٹی کے جن رہنماؤں کے خلاف جو مقدمات بنائے گئے تھے اس سے پہلے میڈیا میں ایک بہت بڑا طوفان اٹھایا گیا جو کہ پہلے سے طے شدہ اور جوڑ توڑ پر مبنی تھا۔ سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا میں کرادار وہی ہیں جو تیس پینتیس سال سے موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کا ماحول پیدا ہوتا رہا ہے۔ اس میں یہ نہیں ہے کہ کون سی جماعت کامیاب ہوئی یا ناکام ہوئی، اصل بات تو کھیل کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کا بیانیہ اب بھی موجود ہے اور اس کے متبادل عوامی بنیاد کا کوئی مضبوط بیانیہ سامنے نہیں آیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں سیاسی صورت حال کیا رخ اختیار کرتی ہے۔