افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اہلِ تشیع علما کے اجلاس میں طالبان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کابل میں اہلِ تشیع کی تمام مساجد میں محرم کے حوالے سے مجالس منقعد کرنے کی اجازت دی جائے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق طالبان کے برسرِ اقتدار آنے سے قبل سابقہ حکومتوں میں اعلیٰ عہدوں اور مرکزی وزارت میں رہنے والے اہلِ تشیع عالم سید حسین علمی بلخ نے بھی پریس کانفرنس میں کابل میں محرم کے حوالے سے مجالس کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اہلِ تشیع افراد کو کابل سمیت دیگر علاقوں میں آزادنہ طور پر مکمل حفاظت کے ساتھ مجالس کی اجازت دی جائے۔
ان کی پریس کانفرنس سے قبل افغانستان کے اہلِ تشیع علما کی کونسل کا اجلاس ہوا تھا جس میں یہی مطالبات رکھے گئے تھے۔
دوسری جانب طالبان کے کابل کے گورنر کے آفس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اہلِ تشیع علما سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ مساجد کے باہر بڑی تقاریب نہیں ہوں گی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بعض مساجد کو بھی سیکیورٹی خدشات کے سبب بند کیا جا رہا ہے۔
افغان طالبان کے مطابق جن مساجد کو بند کیا گیا ہے اس علاقے کے اہلِ تشیع مکین قریبی علاقوں میں دیگر مقامات پر مجالس میں شریک ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان میں برسِ اقتدار آنے سے قبل کابل سمیت کئی علاقوں میں اہلِ تشیع افراد بڑے جلوس اور مجالس منقعد کرتے تھے۔
طالبان کی جانب سے افغانستان کی اہلِ تشیع برادری پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ مختلف نشانوں والے جھنڈوں اور علامات کے ساتھ عوامی سطح پر کوئی مجلس نہیں کریں گے۔ اسی طرح طالبان متعدد مقامات پر مجالس کے انعقاد پر پابندی عائد کر چکے ہیں۔
قبل ازیں طالبان یہ کہتے رہے ہیں کہ اہلِ تشیع برادری کو اپنے عقائد کے ساتھ ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔