پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں دائر کیے جانے والے حکمران اتحاد کے ریفرنس کی پہلی سماعت میں چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے کاغذوں میں عمران خان اب بھی رکن اسمبلی ہیں۔
پاکستان میں حکمراں جماعت کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کیا تھا۔ ریفرنس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کے بعد وہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف اور تریسٹھ ٹو کے تحت غلط بیانی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے بطور وزیرِِ اعظم توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔ ریفرنس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریکِ انصاف کی فارن فنڈنگ سے متعلق فیصلے کی کاپی بھی لف کی گئی ہے۔
جمعرات کو دورانِ سماعت میں چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ بار بار کہا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن استعفے منظور نہیں کررہا۔ دکھا دیں اگر سابق ڈپٹی اسپیکر نے کوئی استعفیٰ بھیجا ہو۔ الیکشن کمیشن کے کاغذوں میں عمران خان اب بھی رکن اسمبلی ہیں۔
سماعت کے آغاز میں عمران خان کے وکیل نے تحریری مواد نہ ملنے کا عذر پیش کیا، پھر نکتہ اٹھایا کہ عمران خان رکنِ اسمبلی نہیں ہیں اس لیےانہیں نوٹس جاری ہی نہیں ہو سکتا۔ کوئی رکن استعفے کا اعلان کرکے ایوان میں نہ جائے تو استعفی منظور تصور ہوتا ہے۔بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ اسپیکر کی جانب سے بھیجا گیا ریفرنس 24 اگست کو مقرر ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے بیرسٹر گوہر خان سے کہا کہ سابق ڈپٹی اسپیکر نے کوئی استعفیٰ بھیجا ہو تو دکھا دیں، کمیشن میں قانونی بات کریں باقی گفتگو ٹی وی پر کیا کریں۔ استعفیٰ منظورکرنے کے حوالے سے بیانات بھی نہ دیا کریں۔ ہم نے 30 روز کے اندر اس کیس کا فیصلہ کرنا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کے وکیل کو ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئےتوشہ خانہ ریفرنس کی سماعت 22 اگست تک ملتوی کردی گئی۔
رسیدیں مانگنے والوں کے لیے اب رسیدیں دینے کا وقت ہے:محسن شاہ نواز رانجھا
اس ریفرنس کے مدعی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما محسن شاہ نواز رانجھا نےسماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کی نااہلی والا فیصلہ اب عمران پر لگنے والا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ جو رسیدیں پہلے آپ اپنے سیاسی مخالفین سے مانگتے تھے اب آپ کے رسیدیں دینے کا وقت آ گیا ہے۔
محسن شاہ نواز کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف اپنے بچوں سے تنخواہ ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر نااہل ہو سکتے ہیں تو عمران خان نے تو واضح جھوٹ بولا ہے، لہذٰا اب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا فیصلہ عمران خان پر بھی لاگو ہو گا۔
عمران خان نے کیا تحائف وصول کیے؟
عمران خان کی نا اہلی کے لیے حکومتی اتحادیوں کی جانب سے الیکشن کمیشن میں دائر توشہ خانہ ریفرنس میں سرکاری ریکارڈ شامل ہے جس کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی 6 ماہ میں 10 کروڑ روپے مالیت کے تحائف صرف 20 فی صد قیمت پر رکھ لیے گئے جب کہ کروڑوں روپے کی قیمتی گھڑیوں اور لاکھوں روپے والی انگوٹھیوں کی بھی انتہائی کم قیمت جمع کروائی گئی ہے۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے جو تحائف لیے ان میں 30 ہزارکا ٹیبل میٹ، 30ہزارکا لاکٹ، ساڑھے3ہزار کی ٹیبل واچ، ساڑھے 3ہزار روپے کاٹی سیٹ، کارڈ ہولڈر اور پیپرویٹ اور 30ہزار کے پرفیومز اور عود کی لکڑی شامل ہے۔ایک لاکھ 14 ہزار روپے مالیت کے مختلف قسم کے گلدانوں اور ایک لاکھ 11 ہزار روپے مالیت کے 6 وال ہینگنگز کی بھی کوئی قیمت ادا نہ کی گئی۔2 لاکھ 18 ہزار روپے قیمت والے 12 ڈیکوریشن پیسز کی بھی ادائیگی نہیں کی گئی۔
توشہ خانے سے بغیر ادائیگی لیے جانے والے سامان میں ایک لاکھ 33 ہزار روپے مالیت کے 6 قالین بھی شامل ہیں۔
5،5ہزار کے دو خطاطی کے فن پارے، ٹرک کا ماڈل ، 20 ہزار کا لاکٹ اور 5 ہزار کا لیڈیز بیگ بھی بغیرادائیگی عمران خان نے لے لیے۔
اس کے علاوہ 20،25 ہزار روپے مالیت کے خانہ کعبہ کے ماڈل، 6 ہزار کے بیت اللہ کی چابی کے ماڈل، ہزار مالیت کے مکہ کلاک ٹاور ماڈل کے علاوہ کھجوریں، 2 جائےنماز، 2 تسبیح اور6 بوتل شہد پر مشتمل 2 بکس کی بھی ادائیگی نہیں ہوئی، جن کی مالیت 29 ہزار 700 روپے ہے۔ساڑھے 7 ہزار روپے مالیت کے سری لنکا سے آئے قیمتی پتھر اور تسبیح ،27 ہزار کا شطرنج بورڈ اور 22 ہزار روپے کا نادر پیالہ بھی بغیر ادائیگی لے لیا گیا۔
ریفرنس کے مطابق عمران خان نے 14کروڑ20لاکھ مالیت کے تحائف کے بدلے صرف 3 کروڑ81 لاکھ ادائیگی کی۔قیمتی گھڑیوں، پرفیومز، مردانہ و زنانہ کپڑوں، زیورات اور دیگر تحائف سے بھرے 3 کروڑ 10 لاکھ 400 روپے مالیت کے 6 بکسوں کے صرف ایک کروڑ 54 لاکھ 91 ہزار 450 روپے ادا کیے گئے۔اِن تحائف میں سے ایک عمران خان جب کہ باقی تمام سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کو دیے گئے تھے۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ساڑھے 8 کروڑ روپے کی گریف گھڑی صرف ایک کروڑ 70لاکھ ، 15لاکھ کی رولیکس گھڑی 2 لاکھ 49 ہزار میں لی گئی۔ 56 لاکھ کے کف لنکس، 15لاکھ کا پین اور87لاکھ کی انگوٹھی کی صرف 20 فی صد ادائیگی کی گئی۔ 38 لاکھ روپے والی رولیکس گھڑی کےصرف 7 لاکھ 54 ہزار، 19لاکھ کی گھڑی کے 9 لاکھ 35ہزار ادا کیےگئے۔اسی طرح 17 لاکھ 23 ہزار روپے کی رولیکس گھڑیاں، آئی فون، مردانہ کپڑے، قیمتی پرفیومز اور بٹوے کے صرف 3 لاکھ 38 ہزار600 ادا کیے گئے۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم نے 32 ہزار روپے کا قالین صرف ایک ہزارروپے ، ایک لاکھ 10 ہزار مالیت والا ڈنرسیٹ 40 ہزار جب کہ ایک لاکھ 20 ہزار مالیت کا ایک ڈنر سیٹ اور کف لنکس کی جوڑی صرف 45 ہزار میں توشہ خانہ سے حاصل کیے۔
سابق وزرائے اعظم کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس
اس سے قبل تین سابق وزرائے اعطم کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس قائم کیے گئے تھے جن میں سابق وزیراعظم نوازشریف،سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی شامل ہیں۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نیب کی طرف سے دائر کیے گئے ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے صرف 15 فی صد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کی ہیں۔
نیب نے الزام عائد کیا کہ سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور قوانین کو نرم کیا۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ آصف زرداری کو ستمبر، اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو 750، لیکسز جیپ اور لیبیا سے بی ایم ڈبلیو 760، گاڑیاں تحفے میں ملی تھیں۔
مذکورہ ریفرنس کے مطابق سابق صدر فوری طور پر ان گاڑیوں کی اطلاع دینے اور کابینہ ڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کرانے کے پابند تھے، لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا اور نہ ہی اُنہیں جمع کرایا گیا۔
نیب ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے طریقۂ کار میں غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔
پاکستان تحریکِ انصاف کا مؤقف
پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے توشہ خانہ ریفرنس اور حاصل کیے گئے تحائف سے متعلق کہا گیا ہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان نے تمام تحائف رولز میں مقرر کردہ قواعد کے مطابق ادائیگی کے بعد حاصل کیے ہیں اور اس بارے میں عائد کردہ تمام الزامات غلط ہیں۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ماضی میں کروڑوں روپے مالیت کی اشیا مفت میں حاصل کی گئیں جب کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے متعلق رولز کو تبدیل کیا اور اب وزیراعظم کو 20 فی صد کے بجائے توشہ خانہ سے سامان حاصل کرنے کے لیے 50 فی صد ادا کرنا ہوں گے۔ پی ٹی آئی نے شفافیت میں اضافہ کیا ۔
توشہ خانہ ہوتا کیا ہے؟
پاکستان میں رائج قانون کے مطابق جب بھی کوئی حکمران یا بیوروکریٹ کسی سرکاری دورے پر بیرونِ ملک جائے اور اسے وہاں تحائف ملیں تو وہ وطن واپس آ کر یہ تحائف اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کرانے کا پابند ہوتا ہے۔
سرکاری قوانین کے تحت سرکاری افسر، عوامی نمائندے یا مسلح افواج سے وابستہ کوئی بھی افسر سرکاری تحائف ظاہر کرنے کا پابند ہے۔ یہ تحائف فی الفور کابینہ ڈویژن کے ماتحت سرکاری تحائف کی تحویل کے مرکز توشہ خانہ میں جمع کیے جاتے ہیں۔
اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف ضابطے کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
توشہ خانہ پاکستان بننے کے بعد وزارتِ خارجہ کے ماتحت تھا لیکن 1973 میں اسے کابینہ ڈویژن کے ماتحت کر دیا گیا تھا۔
صوبائی سطح پر ملنے والے سرکاری تحائف ایس اینڈ جی اے ڈی کے ماتحت کیبنٹ سیکشن کے پاس رکھے جاتے ہیں۔
کیبنٹ ڈویژن ایسے تحائف کی قیمت کا تعین کر کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے علاوہ ٹیکسلا میوزیم، نیشنل کونسل آف آرٹس، وغیرہ سے تحفے کی نوعیت کے حوالے سے رجوع کر سکتی ہے۔ پرائیویٹ سطح پر بھی تحائف کی قیمت جانچی جاسکتی ہے۔
قیمت کا تعین کرنے والی پرائیویٹ کمپنیاں ‘پاکستان جیولری اینڈ جم اسٹونز ایسوسی ایشن’ کی نامزد کردہ ہوتی ہیں۔
قوائد کے مطابق ایسا تحفہ جس کی مالیت 30 ہزار روپے تک ہو۔ وہ تحفہ کسی قیمت کے بغیر ہی تحفہ وصول کرنے والے کو دیا جا سکتا ہے۔اس سے زائد کے تحائف کو مجموعی مالیت کا کچھ فی صد ادا کر کے لیا جا سکتا ہے۔