پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باوجود اس سال بھی سیکڑوں سکھ یاتری اپنے مذہب کے بانی بابا گرو نانک کی پیدائش کی مناسبت سے منعقد ہونے والی تقاریب میں شرکت کے لیے ہفتہ کو پاکستان پہنچے۔
پاکستان میں آباد مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے نگران ادارے، محکمہ اوقاف کے سربراہ صدیق الفاروق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے نے تین ہزار سے زائد سکھ یاتریوں کو ویزے جاری کر دیئے ہیں تاکہ وہ ’’بابا گرو نانک‘‘ کے یوم پیدائش کے سلسلے میں مذہبی تقاریب میں شرکت کر سکیں۔
صدیق الفاروق نے ہفتہ کو واہگہ سرحد پر سکھ یاتریوں کا استقبال کیا۔ اُنھوں نے بتایا کہ بھارت کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی سکھ یاتری 10 روز کے لیے پاکستان پہنچے ہیں۔
یاتری لاہور سے صوبہ پنجاب علاقے ننکانہ صاحب پہنچیں گے جو بابا گرونانک کی جائے پیدائش ہے۔
’’کشیدگی کے باوجود وزیراعظم نے مجھے سے کہا کہ مذہب، اقلیتوں اور یاتریوں کے معاملے کو ہر چیز سے ہم نے الگ رکھنا ہے۔۔۔۔ اس لیے یاتریوں کی سہولت کے لیے ہم نے پچھلے سال سے بھی زیادہ اچھے اقدامات کیے۔۔۔۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ’پروٹوکول‘ تو تین ہزار ویزوں کا ہے لیکن اس سال 3319 ویزے لگے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ اس مرتبہ بھی سکھ یاتریوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے گئے ہیں۔
صدیق الفاروق کا کہنا تھا کہ کسی بھی تلخی کے باوجود دونوں ملکوں کو ایک سے دوسرے ملک جانے کے خواہشمند یاتریوں اور زائرین کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنی چاہیئے۔
سکھ یاتری ایسے وقت پاکستان پہنچے ہیں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز کے درمیان حالیہ ہفتوں میں کشمیر کو منقسم کرنے والی ’لائن آف کنٹرول‘ کے علاوہ ’ورکنگ باؤنڈری‘ پر فائرنگ کے تبادلے کے بیسیوں واقعات ہو چکے ہیں۔
اس سرحدی کشیدگی میں اضافہ ستمبر میں بھارتی کشمیر میں اوڑی کے علاقے میں ایک فوجی ہیڈ کوارٹر پر عسکریت پسندوں کے حملے میں کم از کم 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ہوا۔
بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان میں موجود کالعدم تنظیم ’جیش محمد‘ پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حملہ آوروں کو پاکستان کی مدد بھی حاصل تھی۔
تاہم پاکستان کی طرف سے ان الزامات کی سختی سے تردید کی جاتی رہی ہے۔
پاکستان کا دعویٰ ہے کہ حالیہ ہفتوں میں بھارتی فورسز کی فائرنگ و گولی باری میں اس کے ہاں 26 شہری ہلاک جب کہ 107 زخمی ہوئے جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔
دوسری جانب بھارت کی طرف سے بھی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستانی فورسز کی فائرنگ میں اُس کی جانب شہری ہلاکتیں ہوئیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی بھی کرنی پڑی۔
دونوں ملکوں کے درمیان 2003ء میں فائر بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، پاکستان اور بھارت ایک دوسرے پر اس معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین ’امریکہ، چین، فرانس، روس اور برطانیہ‘ کے اسلام آباد میں تعینات سفارت کاروں کو لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر گزشتہ دو ماہ سے جاری کشیدگی کے بارے میں بریفنگ دی۔
وزارت خارجہ سے جاری بیان کے مطابق سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ بھارت کے حالیہ اقدامات سے علاقائی امن و سلامتی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔