رسائی کے لنکس

سلیکان ویلی؛ 'گھروں سے کام کا آغاز آسان تھا مگر اسے ختم کرنا مشکل ہے'


ٹیلی ورک
ٹیلی ورک

کرونا وائرس کی وباء نے ملازمین کی ایک بڑی اکثریت کو دفتروں کے بجائے گھرسے کام کرنے پر مجبور کر دیا اور بہت سے ان اداروں کو بھی اپنے ملازمین کوگھر سے کام کرنے کی اجازت دینی پڑی جواس سے پہلے قطعاً اس پرآمادہ نہیں تھے۔

آئی ٹی اور ایسے ہی دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے کئی ادارےگھر سے کام کرنے کی سہولت پہلے بھی فراہم کر رہے تھے۔ ان میں سرِ فہرست کیلیفورنیا میں سلیکون ویلی کی کمپنیاں تھیں۔ مگر اب انہیں ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے کہ وہ ان ملازمین کو دفتر واپس کیسے، کب اور کہاں لے کر آئیں۔

اور سوال یہ بھی ہے کہ آیا دفتروں سےدور اپنے اپنے گھروں سے کام کرنے والے ملازمین کو دفتر واپس لایا بھی جائے یا نہیں۔

برینٹ ہائیدر سافٹ وئیر کمپنی سیلز فورس میں چیف پیپل آفیسر ہیں۔وہ کہتے ہیں،"میرا خیال تھا کہ گھر سے کام کرنے کا یہ ڈیڑھ سال میرے لئے اور دنیا بھر میں کمپنی کے 65,000 ملازمین کے لئے بہت چیلنج لے کر آئے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ مگر سب کچھ پہلے کی طرح دوبارہ شروع کرنا جیسا کہ اسے ہونا چاہئیے، اب زیادہ مشکل نظر آتا ہے''۔

ڈیلٹا ویرئنٹ کے تیزی سے پھیلنے کے باعث واپس دفتروں کو جانے کا عمل اور بھی پیچیدہ ہو گیا ہے۔ اور ٹیکنالوجی کی جو کمپنیاں 6 ستمبر کو لیبر ڈے کی چھٹی کے بعد اپنے بیشتر ملازمین کو دفتروں میں واپس بلانے کے منصوبے بنا رہی تھیں اب انہیں مؤخر کر رہی ہیں۔

مائیکرو سافٹ نے اب اس منصوبے میں اکتوبر تک تاخیر کردی ہے جبکہ ایپل، گوگل، فیس بک، ایمازون اور کئی دیگر کمپنیوں نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اس پر آئندہ برس عمل کریں گے۔

کولمبیا یونیورسٹی میں اقتصادیات کی اسسٹنٹ پروفیسر لورا بورڈو کہتی ہیں کہ اس وباء کے اثرات جتنے بڑھتے جا رہے ہیں اتنا ہی کمپنیوں کے لئےملازمین کو دفتروں میں واپس بلانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ان کے الفاظ میں،" ہم دفتر سے دور گھر سے کام کرنے کو عارضی سمجھنے کے تصور سے دور نکل آئے ہیں۔"

ٹیکنالوجی کمپنیوں میں ملازمت کا تعلق زیادہ تر ڈیجیٹل اور آن لائن معاملات سے ہوتا ہے۔ اس لئے اکثر کمپنیاں ملازمت ہی دفتر سے باہر فراہم کرتی ہیں جنہیں 'ریموٹ جابز' کہا جاتا ہے۔ تاہم، بہت سی کمپنیوں کا اصرار ہے کہ ملازمین کو ہفتے میں دو یا تین روز دفتر بھی آنا چاہئیے۔

ان کا خیال ہے کہ لوگ جب دفتر میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں اور نئے نظریات سامنے آتے ہیں جو نئی ایجادات میں مدد دیتے ہیں اور جو غالباً الگ تھلگ رہ کر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔

لیکن سافٹ وئیر بنانے والی ٹویلیو نامی کمپنی کی چیف پیپل آفیسر کرسٹی لیک کا کہنا ہے،"اب اس جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنا مشکل ہے۔ آپ لوگوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ بھئی دفتر واپس آجائیں ورنہ ایجادات نہیں ہوں گی۔"

ٹویلیو میں لگ بھگ 6,300 لوگ کام کرتے ہیں اور وہ اپنے ملازمین کو آئندہ برس کے شروع تک گھر سے کام کرنے دے رہے ہیں۔ پھر ان سے پوچھیں گے کہ وہ کب کب دفتر آسکتے ہیں۔

'زوم' کی، جو سلیکون ویلی کی وڈیو کانفرنس کی سروس ہے، اس وباء میں حصص کی قیمت گری ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے ملازمین کی اکثریت دفتر آنا چاہتی ہے مگر جز وقتی طور پر۔

زوم کی چیف فنانشل آفیسر کیتھی سکیٹلبرگ کہتی ہیں ایسا کوئی پیمانہ نہیں جو سب کے لئے موزوں ہو۔

مگر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دفتر جانے کو اپنی زندگی کی عافیت سمجھتے ہیں۔

کیلی سودرلد دو چھوٹے بچوں کی ماں ہیں اور سان فرانسسکو اور پالو آلٹو کیلیفورنیا میں ٹریول مینیجمنٹ کمپنی 'ٹرپ ایکشن' کے لئے کام کرتی ہیں جس کے دنیا میں 1,200 ملازمین ہیں۔

وہ کہتی ہیں جیسے ہی کمپنی نے جون میں جزوی طور پر اپنے دفتر کھولے وہ فوراً دفتر واپس آگئیں، کیونکہ مسافت جو وہ دفتر کے لئے طے کرتی ہیں واحد ایک گھنٹہ ہے جب وہ اپنے گھر اور دفتر کی زندگی کو الگ الگ کر پاتی ہیں۔

اور اس سے پہلے جب وہ گھر سے کام کر رہی تھیں تو ان کے پاس یہ وقفہ نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں،"صبح اٹھتے ہی کام شروع۔ بچے کو ڈے کئیر چھوڑ کر واپس کام پر۔ پھر اسے واپس لاؤ اور پھر کام کرو اور حتیٰ کہ رات کے کھانے کے بعد بھی کام کرو۔ ایسا لگتا تھا کہ پورا وقت صرف کام ہی کرتے رہو۔"

مگر انکر داحیہ جیسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس وباء اور لاک ڈاؤن کے دنوں میں گھر پر رہ کر گذشتہ برس 'رن ایکس' کے نام سے اپنی ایک سافٹ وئیر کمپنی بنائی۔ وہ کہتے ہیں گھر سے کام کرنے والے لوگوں کو ملازم رکھنے میں انہیں آسانی ہوئی۔

اب ان کے سان فرانسسکو کے دفتر میں وہ اور ان کے آٹھ ملازمین ہفتے میں ایک روز ملتے ہیں، جبکہ ان کے دیگر ملازمین کینیڈا، نواڈا اور اوریگن میں ہیں جو تین ماہ میں ایک مرتبہ میٹنگ کے لئے آتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے دس سال تک دفتر میں بیٹھ کر کام کیا اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دفتر میں وقت ضائع ہوتا ہے۔

XS
SM
MD
LG