رسائی کے لنکس

سندھ میں زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کا قانون کتنا موثر ہوگا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ اسمبلی نے صوبے میں خواتین کسانوں کے حقوق کے تحفظ کا ایک بل منظور کر لیا ہے جس کے تحت زراعت کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کو تنخواہوں کی ادائیگی سمیت کئی بنیادی حقوق دئیے گئے ہیں۔

صوبے میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی جہاں اس قانون کو تاریخی قرار دے رہی ہے وہیں انسانی حقوق کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ بل کی منظوری جلد بازی میں کی گئی ہے۔

قانون میں زرعی کارکن خواتین کے لئے کیا ہے؟

سندھ اسمبلی نے گذشتہ ہفتے زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق سے متعلق جس بل کی منظوری دی تھی، اسے حزب اختلاف کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی۔ بل کے تحت زرعی کارکن خواتین کو باقاعدہ مزدور تسلیم کر کے ان کے سماجی اور قانونی تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے۔ زرعی خواتین ورکرز کو مختلف صنعتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے برابر حقوق دینے اور معاشی امداد کی فراہمی کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

زرعی شعبے میں خواتین کو کام پر رکھنے کے لئے کنٹریکٹ کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ان سے آٹھ گھنٹوں سے زیادہ کام لینے کی ممانعت کرتے ہوئے کام کے دوران آرام کے وقفے کا بھی حق دیا گیا ہے۔

قانون کے تحت خواتین ملازمت کے دوران اپنے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے سمیت ان کی دیکھ بھال کا بھی مکمل حق رکھتی ہیں۔ جب کہ خواتین کی کم ازکم اجرت 15 ہزار روپے رکھی گئی ہے جو ایک صنعتی مزدور کے مساوی ہے۔

زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹیوں کی سہولت دی گئی ہیں۔ ان میں ہفتہ وار اور سالانہ چھٹیاں، میٹرنٹی لیوز اور طلاق کی صورت میں عدت کی مدت گزارنے کے لئے بھی چھٹیاں بھی شامل ہیں۔

زرعی کارکن خواتین کو یونین سازی کا حق بھی دیا گیا ہے۔

وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بل کا بنیادی مقصد صوبے کی دیہی خواتین کو معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم کرنا ہے۔ خواتین اور بالخصوص دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی اکثریت کا تعلق زراعت سے ہے لیکن عام طور پر ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ اکثر صورتوں میں زیادہ تر خواتین معاوضے کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔

اسماعیل راہو کے مطابق اس بل کی منظوری سے جہاں ایک جانب خواتین کے حقوق کا تحفظ ہو سکے گا، وہیں زرعی شعبے سے منسلک خواتین کی رجسٹریشن بھی کی جائے گی تاکہ اگلے مرحلے میں انہیں مالی امداد بھی فراہم کی جا سکے، جس کے لئے صوبائی حکومت کسان کارڈ کے اجراء کا ارادہ رکھتی ہے۔

اگرچہ حکومت کے پاس زراعتی شعبے سے منسلک خواتین کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، لیکن 2018 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی دیہی آبادی سے 67 فیصد خواتین زراعت سے وابستہ ہیں، مگر ان میں سے 60 فیصد خواتین بلامعاوضہ کسی اور کے فائدے کے لیے کام کرتی ہیں۔

اسماعیل راہو کے مطابق پہلے مرحلے میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر چند اضلاع کی بعض یونین کونسلوں میں زرعی کارکن خواتین کو معاشی امداد فراہم کی جائے گی اور پھر آہستہ آہستہ اس کا دائرہ صوبے بھر میں پھیلا دیا جائے گا۔

انسانی حقوق کے ادارے کیا کہتے ہیں؟

ایک جانب جہاں سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکن اس قانون کی منظوری کا خیرمقدم کر رہے ہیں، وہیں اس قانون کی جلدبازی میں منظوری اور نفاذ پر نکتہ چینی بھی کی جا رہی ہے۔

سندھ میں خواتین کی صورت حال سے متعلق کمشن کی چیئرپرسن نزہت شیریں کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس قانون کی منظوری ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس میں کئی سقم بھی موجود ہیں۔ قانون کی منظوری سے قبل اہم اسٹیک ہولڈرز بشمول خواتین کے کمشن سے کسی مشاورت کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔

نزہت شیریں کے مطابق اگر اس میں ان لوگوں کی آوازیں شامل کی جائیں جو اس بل سے متاثر ہوں گے تو اس قانون کے نفاذ اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنا آسان ہوتا۔ ان کے خیال میں اگر جلد بازی میں قوانین پاس کیے جاتے رہے تو یہ صوبے کے لئے اچھا نہیں ہو گا۔

انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہی خواتین کو تعلیم اور شعور دئے بغیر بل کے تمام مقاصد حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ جس کے لئے تعلیم بالغان کا نظام بھی شروع کیا جائے تاکہ خواتین کو کم از کم اپنے حقوق سے آگہی حاصل ہو سکے۔

اسی طرح دیہی خواتین کو اگر تشدد اور ہراساں کیے جانے کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے تدارک کے لئے کیا انتظام کیا گیا ہے؟ ان کے خیال میں زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے لیے کیڑے مار ادویات کے مضر اثرات سے بچاؤ کو بل کا حصہ بنانا چائیے تھا۔

اس سے قبل سندھ کابینہ نے اگست کے آخری ہفتے میں بل کے مسودے کی منظوری دے کر اسے اسمبلی میں بھیجا تھا۔ جس کے بعد اسے سیلیکٹ کمیٹی سے منظوری کے بعد ایوان میں لایا گیا۔ صوبائی اسمبلی کی منظوری کے بعد یہ بل ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا قانون بن گیا ہے جس میں زراعت سے وابستہ خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG