رسائی کے لنکس

سندھ میں سینیٹ انتخابات کے لیے جوڑ توڑ جاری


سندھ اسمبلی کے اجلاس کا ایک منظر، فائل فوٹو
سندھ اسمبلی کے اجلاس کا ایک منظر، فائل فوٹو

محمد ثاقب

سینیٹرز کے انتخاب کے لئے حق رائے دہی 12ارکان 166سندھ اسمبلی کے ایوان میں موجود استعمال کریں گے۔ اراکین سندھ اسمبلی صوبے سے سینیٹ کے لئے سات عام نشستوں، دو خواتین، دو ٹیکنو کریٹس اور ایک اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے لئے ووٹنگ میں حصہ لیں گے۔

اس مقابلے کے لئے صوبے کی مختلف جماعتوں کے 33 امیدوار حتمی طور پر میدان میں ہیں۔ سات عام نشستوں کے لئے کل 18 امیدوار میدان میں اتریں گے۔ ان نشستوں پر پیپلز پارٹی نے 7 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ ان امیدواروں میں پیپلز پارٹی کے میاں رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو، مرتضیٰ وہاب، امام الدین شوقین، ایاز احمد مہر، سید محمد علی شاہ جاموٹ اور مصطفیٰ نواز کھوکھر شامل ہیں۔

دوسری جانب ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں ایم کیو ایم بہادرآباد اور ایم کیو ایم پی آئی بی کی جانب سے جنرل نشستوں پر کل6 امیدواروں کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ ان امیدواروں میں محمد کامران ٹیسوری، بیرسٹر فروغ نسیم، احمد چنائے، سید امین الحق، عامر چشتی اور فرحان چشتی شامل ہیں۔

اسی طرح پاک سرزمین پارٹی کے سندھ سے جنرل نشستوں پر تین امیدوار میدان میں ہیں، جن میں انیس قائم خانی، ڈاکٹر صغیر احمد اور سید مبشر امام شامل ہیں۔ ایک امیدوار سرفراز خان جتوئی آزاد حیثیت سے جبکہ مسلم لیگ فکننشل کے سید مظفر حسین شاہ بھی جنرل نشستوں سے میدان میں ہیں۔

اقلیتوں کی ایک نشست پر مقابلے کے لئے تین امیدوار میدان میں ہیں جن میں انور لعل ڈین (پیپلز پارٹی)، ڈاکٹر موہن منجیانی (پاک سرزمین پارٹی) اور سنجے پیروانی (ایم کیو ایم) حصہ لے رہے ہیں۔

خواتین کی دو نشستوں کے لئے کل 6 امیدوار میدان میں ہیں۔ ان میں پیپلز پارٹی کی 2 (قرۃ العین مری، کیشو بائی) اور ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کی 4 خواتین (نسرین جلیل، منگلا شرما، کشور زہرا اور ڈاکٹر نگہت جلیل) شامل ہیں۔

ٹیکنو کریٹس کی 2 نشستوں پر بھی 6 امیدوار میدان میں ہیں۔ جس میں ایم کیو ایم کے تین (حسن فیروز، ڈاکٹر عبد القادر خانزادہ، سید علی رضا عابدی) پیپلز پارٹی کے دو (ڈاکٹر سکندر میندھرو، رخسانہ زبیری) جبکہ اتحریک انصاف کے ایک امیدوار (ڈاکٹر بجیب ہارون) میدان میں ہیں۔

سندھ اسمبلی میں 166 ارکان ووٹ ڈال سکیں گے۔ ایوان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 94 ارکان ہیں جبکہ گروپ بندی کا شکار ایم کیو ایم پاکستان کے اسمبلی ریکارڈ کے مطابق یوں تو 50 ارکان ہیں لیکن ان میں سے 8 پی ایس پی کا حصہ بن چکے جب کہ 4 ارکان بیرون ملک مقیم ہیں۔ اس لحاظ سے ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کے پاس باقی ارکان کی تعداد 36 بچتی ہے۔

سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے والی پاک سرزمین پارٹی کی سندھ اسمبلی میں تو کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاک سرزمین پارٹی نے اپنے امیدوار سینیٹ انتخابات کے لئے میدان میں اتارے ہیں۔ پی ایس پی ان منحرف ارکان کے ووٹوں پر انحصار کررہی ہے جنہوں نے ایم کیو ایم اور تحریک انصاف سے اپنا ناطہ توڑ کر پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت کا اعلان تو کیا لیکن پارٹی تبدیل کرنے پر سندھ اسمبلی سے مستعفی نہیں ہوئے یا ان کا استعفیٰ اب تک منظور نہیں کیا گیا۔

سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو واضح عددی برتری حاصل ہے اس لئے تجزیہ کاروں کے مطابق وہ با آسانی 12 میں سے 9 نشستیں اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جن میں سے 4 جنرل، 2 ٹیکنو کریٹس، 2 خواتین جبکہ ایک اقلیت کی نشستیں شامل ہیں۔ تاہم ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کی ایک نشست تو یقینی ہے جبکہ باقی کی دو نشستوں پر دیکھنا یہ ہے کہ جوڑ توڑ سے کون سی جماعت اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے میں کامیاب ہو پاتی ہے۔ اس کے لئے سیاسی جماعتوں میں ملاقاتوں اور عہد و پیمان کے سلسلے آخری وقت تک جاری ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایم کیو ایم کی دھڑے بندی کا فائدہ پیپلز پارٹی اٹھانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

تاہم ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کے درمیان اب مشترکہ امیدوار میدان میں اتارنے کے اعلان کے بعد صورت حال تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم راہنماؤں کو امید ہے کہ سینیٹ انتخابات میں وہ دوسری نشست بھی جیت جائیں گے۔ ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں نے اب ڈاکٹر فروغ نسیم، کامران ٹیسوری، عبدالقادر خانزادہ، ڈاکٹر نگہت اور سنجے پروانی کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انتخابات کے لئے سندھ اسمبلی کو پولنگ اسٹیشن میں تبدیل کردیا گیا ہے اور اسمبلی انتظامیہ نے عمارت کو بھی الیکشن کمشن کے سپرد کردیا ہے۔ ایوان بالا کے انتخابات میں پولنگ کا عمل مارچ کو صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک جاری رہے گا۔

XS
SM
MD
LG