پاکستان کے صوبے سندھ میں خواتین کے خلاف تشدد اور ہراساں کیے جانے کے ساتھ ساتھ کاروکاری اور دوسری فرسودہ روایات یا دشمنی کے نتیجے میں ہلاک کیے جانے کے واقعات کی روک تھام کےلیے ویمن پروٹیکشن سیلز قائم کیے جا چکے ہیں۔
یہ سیلز سندھ پولیس اور روٹ ورک فاؤنڈیشن یا آر ڈبلیو ایف کے ایک مشترکہ پراجیکٹ کے تحت سندھ کے تین شہروں میں قائم کیے گئے ہیں۔
اس پراجیکٹ کے بارے میں روٹ ورک فاؤنڈیشن کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر سرتاج عباسی نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹر ویو میں بتایا کہ اس مشترکہ پراجیکٹ کے تحت اس وقت حیدرآباد ، کراچی اورسکھر میں یہ مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں سندھ اور ملک بھر سے خواتین، ہیلپ لائنز کے ذریعے ، فیس بک کے ذریعے یا خود پولیس اسٹیشن کے پروٹیکشن سیل میں آکر اپنے ساتھ ہونے والے تشدد کی شکایات درج کراتی ہیں جن پر سینٹر فوری طور پر پولیس کو متحرک کر تا ہے اور ان کی شکایات کا ازالہ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً ڈیڑھ سال پہلے قائم ہونے والے اس پراجیکٹ کے تحت اب تک 700 سے زیادہ کیس حل کیے جا چکے ہیں جن میں سے 50 فیصد کیس گھریلو تشدد کے واقعات تھے ۔ اس کے علاوہ سائبر کرائمز کے کیسز بھی بہت زیادہ درج کرائے گئے ۔
سائبر کرائمز کی تفصيل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان میں لڑکیوں کی تصاوير اور ویڈیوز کو فیس بک اور انسٹاگرام سے لے کر ان کے جعلی اکاؤنٹ بنا کر ان کے ذریعے ان کی بلیک میلنگ کی گئی، ان سے پیسے مانگے گئے یا جنسی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کیا گیا ۔
سرتاج عباسی نے کہا کہ ان کے پاس ملازمت پیشہ خواتین کی جانب سے دفتروں میں اپنے مرد ساتھیوں کی اور یونیورسٹی کی طالبات کی جانب سے اپنے ساتھی طالب علموں کی طرف سے انہیں ہراساں کئے جانے کی شکایات بھی آتی ہیں۔
اسی طرح جبری شادیوں کے سلسلے میں کچھ ایسی شکایات آئی ہیں جن میں لڑکیوں کو شادی کے بہانے دوسرے شہروں میں بلایا گیا اور انہیں جسم فروشی پر مجبور کیا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی انوکھی شکایات بھی آئیں جن میں بیٹی کو اس کے اپنے باپ نے زیادتی کا نشانہ بنایا ۔
سرتاج عباسی نے کہا کہ ان کا ادارہ خواتین کی شکایات رجسٹر کرتا ہے اور پھر اس علاقے کی پولیس کی مدد سے اس شخص تک پہنچا جاتا ہے جس کے خلاف شکایت رجسٹر کرائی جاتی ہے اور یوں اس شکایت کا ازالہ قانونی طور پر کیا جاتا ہے۔
سکھر ویمن پروٹیکشن سیل کی انچارج رخسانہ منگی نے کہا کہ ان پروٹیکشن سیلز کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ یہاں پورا عملہ خواتین پر مشتمل ہوتا ہے جس کی وجہ سے خواتین اپنی شکایات درج کرانے میں آسانی محسوس کرتی ہیں۔ اپنے سیل کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کا سیل اب تک خواتین کی 80سے زیادہ شکایات کا ازالہ کر چکا ہے جب کہ بروقت پہنچ کر 10 خواتین کو کاروکار ی ہونے یا ہلاک کیے جانے سے بچا چکا ہے۔
رخسانہ منگی نے کہا کہ سندھ میں قائم خواتین کے پروٹیکشن سیلز خواتین کے ہر قسم کے مسائل کو حل کرانے میں ان کی مدد کر رہے ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک بھر میں، خاص طور پر دیہی علاقوں کی خواتین کے مسائل کے حل کے لیے ایسے مراکز قائم کیے جائیں۔