کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی کی فروٹ منڈی میں ہوئے دھماکے کے خلاف ہزارہ برادری کا دھرنا اتوار کو تیسرے روز بھی جاری رہا۔
اس دھرنے میں خواتین، بچے، ضعیف افراد اور مردوں سمیت تقریباً پانچ سو افراد شریک ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ دھماکوں کے ملزمان کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔
کوئٹہ کی فروٹ منڈی میں تین روز قبل ہونے والے دھماکے میں 20 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے 8 کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔
دھرنے کے شرکا کا کہنا ہے کہ دھرنے کا مقصد اپنا پیغام پورے ملک تک پہنچانا ہے اور مطالبات تسلیم ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔
’ہمیں جینے کا حق کیوں نہیں ہے‘
شرکا کا کہنا ہے کہ شیعہ ہزارہ برادری کو ان کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔
دھرنے میں شامل معروف سیاسی کارکن طاہر خان ہزارہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دھرنے کا مقصد صرف یقین دہانی نہیں کیوں کہ فوج کے سربراہ، وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی جانب سے یقین دہانیاں تو ماضی میں بھی کرائی جاتی رہی ہیں لیکن اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔
انھوں نے کہا کہ ہم آج پھر دھرنے پر بیٹھے ہیں اور ہمیں بھی دوسروں کی طرح ہمارے حقوق ملنے چاہیئں۔
دھرنے میں شریک ایک اور شخص احمد علی نے وی او اے سے گفتگو میں کہا کہ'' اپنا پیٹ پالنے کی خاظر فروٹ منڈی آنے والے بے گناہ لوگوں کی زندگی کے چراغ بجھا دئیے گئے، ہمارا سوال یہ ہے کہ ہمیں جینے کا حق کیو ں نہیں مل رہا؟ کیا ہم انسان نہیں؟ کیا ہم محب وطن پاکستانی نہیں؟ آخر ہمیں کس جرم کی سزا مل رہی ہے۔ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے ہمارے خلاف دہشت گردی ہورہی ہے کوئی دہشت گرد پکڑا نہیں جاتا ،کسی کو سزا نہیں ہوتی۔''
انہوں نے کہا کہ ہم وزیراعظم عمران خان سے اپیل کر تے ہیں کہ ہم بھی اسی ملک کے باشندے ہیں ہمیں پاکستان کے آئین نے یہاں رہنے کا حق دیا ہے تو ہمیں بھی تحفظ فراہم کیا جائے۔
کوئٹہ دھماکے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل
دوسری جانب پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دھماکے کی تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ واقعے کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جارہا ہے۔
ڈی آئی جی کو ئٹہ عبدالرزاق چیمہ کا کہنا ہے کہ خود کش حملہ آور کے جسمانی اعضا ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے لاہور بھجوا دیئے ہیں جبکہ ملزمان کی شناخت کے لئے نادرا سے بھی مدد حاصل کی جا رہی ہے۔
ہزارہ برادری کو ماضی میں بھی متعدد بار ٹارگٹ کیا جاتا رہا ہے جس میں بہت سی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
ہزارہ برادری کی جانب سے ہر بار احتجاج بھی ہوتا رہا ہے اور حکومتی کوششوں کے بعد واقعات رک بھی گئے تھے تاہم تین روز قبل ہونے والے دھماکے کے بعد صورت حال ایک مرتبہ پھر خراب ہو گئی ہے۔