رسائی کے لنکس

کشمیر: مواصلاتی پابندیوں میں جزوی نرمی کا امکان


کشمیر پریس کلب کے عہدے داروں اور ممبران نے گزشتہ ہفتے مواصلاتی پابندیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔ (فائل فوٹو)
کشمیر پریس کلب کے عہدے داروں اور ممبران نے گزشتہ ہفتے مواصلاتی پابندیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔ (فائل فوٹو)

بھارت کی مرکزی حکومت کشمیر میں گزشتہ دو ماہ سے عائد مواصلاتی پابندیوں میں جزوی طور پر نرمی پر غور کر رہی ہے۔ امکان ہے کہ آئندہ چند روز میں موبائل فون سروسز بحال کر دی جئیں گی۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو کے دوران موبائل فون سروسز کی بحالی کی طرف اشارہ کیا۔ البتہ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ انٹرنیٹ سروسز مزید چند ہفتوں کے لیے بند رہیں گی۔

ایک اعلیٰ سرکاری عہدے دار نے بتایا ہے کہ حکومت فکسڈ فون لائنز پر دستیاب براڈ بینڈ انٹرنیٹ بحال کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں موبائل فون اور براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروسز کی بحالی کے لیے مقامی انتظامیہ وفاقی وزارتِ داخلہ کی منظوری کا انتظار کر رہی ہے۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے چار اگست کی رات کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں لینڈ لائن، موبائل فون اور انٹرنیٹ سمیت تمام قسم کی مواصلاتی سہولیات کو معطل کر دیا تھا۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مواصلاتی سہولیات کو حفظِ ماتقدم کے طور پر معطل کیا گیا تھا۔

ان کے بقول شرپسند عناصر فون اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال کر کے ریاست میں امن و امان کو بگاڑنے اور افواہیں پھیلانے کی کوششیں کر سکتے تھے۔

بھارتی حکومت یہ الزام بھی لگاتی ہے کہ پاکستان میں سرگرم بعض تنظیموں اور افراد کے ساتھ ریاست میں موجود ’شرپسند‘ اور ’ملک دشمن‘ عناصر نے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو تشدد پر اکسانے اور ان کے جذبات کو ابھارنے کی کوششیں کی ہیں۔ اس بات کے پیشِ نظر انٹرنیٹ سہولیات کو معطل کرنا ناگزیر بن گیا تھا۔

اگرچہ ریاست کے جمّوں خطے میں موبائل فون سروسز کو چند ہفتے پہلے بحال کیا گیا تھا لیکن ان پر دستیاب انٹرنیٹ بدستور بند ہے۔ البتہ جمّوں میں براڈ بینڈ سروسز بحال کی گئی ہیں جب کہ وادی میں بھی لینڈ لائن فون سروسز کو بحال کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دو ماہ سے وادی میں مواصلاتی نظام معطل ہے۔ تاہم مقامی سطح پر مسلسل احتجاج، بین الاقوامی اداروں اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کی تنقید کے پیشِ نظر حکومت مواصلاتی بلیک آؤٹ میں جزوی طور نرمی لانے کا سوچ رہی ہے۔

معمولاتِ زندگی بدستور درہم برہم

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وادی میں عائد پابندیاں جمعے کو 68 ویں روز میں داخل ہو گئی ہیں جب کہ معمولاتِ زندگی بدستور متاثر ہیں۔

مسلح پولیس اور نیم فوجی دستے ریاست کے گرمائی صدر مقام سرینگر کے حساس علاقوں میں ایک مرتبہ پھر ’حفاظتی پابندیاں‘ نافذ کر رہے ہیں۔ شہر کی تاریخی جامع مسجد میں مسلسل دسویں جمعے کو بھی نمازِ جمعہ ادا کرنی کی اجازت نہیں دی گئی۔

کشمیر کے بیشتر سیاسی قائدین اور سرکردہ کارکن تاحال نظربند ہیں۔ حکام نے تعلیمی اداروں کو تو دوبارہ کھول دیا ہے لیکن ان میں طلبہ کی غیر حاضری کے سبب تدریس کا عمل مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکا ہے۔

انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز پر عائد پابندیوں کے باعث لوگوں کو بالخصوص طلبہ، ڈاکٹرز و دیگر طبی عملہ، ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد، ٹریول ایجنسیوں اور آن لائن سروسز وغیرہ سے وابستہ افراد کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مقامی صحافی، ذرائع ابلاغ سے وابستہ ادارے اور کشمیر پریس کلب بھارتی حکومت سے بارہا مطالبہ کر چکے ہیں کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کو بحال کیا جائے۔ کشمیر پریس کلب کے عہدے داروں اور ممبران نے گزشتہ ہفتے اس مطالبے کو منوانے کے لیے سرینگر میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔

ریاست میں عائد مواصلاتی پابندیوں پر بعض بین الاقوامی ادارے اور غیر ملکی حکومتیں بھی تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں ’امریکن ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں مواصلاتی پابندیوں کی وجہ سے لوگوں کی زندگی پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’وقت آگیا ہے جب بھارت کو ان پابندیوں کو ہٹانا چاہیے اور کشمیریوں کو وہی حقوق اور مراعات فراہم کرنے چاہئیں جو بھارت کے دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں۔‘

زمینی حقائق کا اعتراف

کشمیر کی ریاستی انتظامیہ اور بھارت کی وفاقی حکومتیں گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل یہ دعویٰ کرتی آئی ہیں کہ وادی میں معمولاتِ زندگی بحال ہو گئے ہیں۔ انتظامیہ کا دعویٰ رہا ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے اقدام سے مقامی افراد خوش اور مطمئن ہیں۔

لیکن جمعے کو سرینگر کے اخبارات میں ریاستی حکومت کی طرف سے ایک ایسا اشتہار چھپا جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ وادی میں دکانیں بند ہیں اور سڑکوں پر سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہے۔

البتہ اس اشتہار میں اس صورتِ حال کے لیے علیحدگی پسندوں کو موردِ الزام ٹہرایا گیا ہے اور استفسار کیا گیا ہے کہ کیا لوگ علیحدگی پسندوں کے آگے جھکیں گے؟

اشتہار میں کہا گیا ہے کہ جمّوں و کشمیر کے لوگوں کو پچھلے 70 سال سے دھوکے میں رکھا گیا اور ان کے بچوں کی زندگیوں کو تشدد، سنگ باری اور ہڑتالوں کی نذر کیا گیا۔

اشتہار میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا چند پوسٹر اور دھمکیاں ہمیں اپنی تجارتی سرگرمیاں بحال کرنے، اپنے لیے جائز روزگار کمانے، اپنے بچوں کے لیے تعلیم کے حصول اور ان کے مستقبل کو سنوارنے اور اپنے کشمیر کی تعمیر و ترقی کو یقینی بنانے سے روک سکتی ہیں؟

دفعہ 370 کو ختم کرنے کی نئی تاویل

جمّوں و کشمیر کی انتظامیہ نے ایک اور اشتہار کے ذریعے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ختم کرنے کا نیا جواز پیش کیا ہے کہ ان آئینی شقوں سے صرف علحیدگی پسند حریت کانفرنس کے لیڈروں اور ان کے حامیوں کو فائدہ پہنچ رہا تھا۔

اس اشتہار میں کہا گیا ہے کہ جمّوں و کشمیر میں کئی برسوں سے جاری ملک دشمن پروپیگنڈا اور معصوم شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں سے نقصان ہو رہا ہے۔ دفعات 370 اور 35 اے شرپسند عناصر کی طرف سے علحیدگی پسند تحاریک کو پھیلانے اور دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہیں۔

اشتہار کے مطابق ان دفعات کی وجہ سے ریاست الگ تھلگ ہو کر رہ گئی تھی اور خسارہ اٹھا رہی تھی۔ بھارتی پارلیمنٹ نے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے جو قوانین پاس کیے انہیں ان شقوں کی موجودگی میں کشمیر میں لاگو نہیں کیا جا سکتا تھا۔

’اب کشمیر میں سب ٹھیک ہوجائے گا‘

اشتہار کے ذریعے حکومت نے لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد ان کی زندگیوں میں ایک انقلاب آئے گا اور ان کی اقتصادی حالت بہتر سے بہتر ہوتی جائے گی۔

اشتہار میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے ریاست میں بے روزگاری ختم ہو گی۔ نئی اور بڑی صنعتیں قائم ہوں گی اور ملک کے بڑے بڑے تعلیمی ادارے ریاست میں اپنی شاخیں قائم کریں گے۔

سیاسی لیڈروں کو لبھانے کی تازہ کوشش

مقامی عہدے داروں کے مطابق اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے دوسرے شعبوں کے ذریعے شروع کی جانی والی اس مہم کے ساتھ ہی حکومت سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو ایک نئے سیاسی عمل کا حصہ بننے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

عہدیداروں کے بقول اس کا مقصد جمّوں و کشمیر اور لداخ میں امن و امان کی مکمل بحالی کو یقینی بنانا اور انہیں تعمیر و ترقی کی نئی راہ پر گامزن کرنا ہے۔

اس سلسلے میں بھارتی حکومت کے اہم عہدے داروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام نے نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی، پیپلز کانفرنس اور دوسری علاقائی جماعتوں کے نظر بند لیڈروں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔

ایک سرکاری عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اس سلسلے میں حکومت کو فی الوقت کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

عہدے دار کے مطابق ان سیاسی جماعتوں کے بعض رہنماؤں نے اس سیاسی عمل کا حصہ بننے کے لیے جو پیشگی شرائط رکھی ہیں انہیں قبول کرنا مودی حکومت کے لیے آسان کام نہیں ہوگا۔

البتہ مذکورہ عہدے دار نے ان شرائط کی وضاحت نہیں کی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG