بھارت کی مرکزی حکومت کی جانب سے متواتر کہا جا رہا ہے کہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم ہونے کے بعد صورت حال مکمل کنٹرول میں ہے تاہم سرکاری رپورٹس میں سامنے آیا ہے کہ دو ماہ میں یومیہ پانچ بار فورسز کو مشتعل افراد کی جانب سے پتھراو کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بھارت کے نشریاتی ادارے 'نیوز 18' کی رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد پانچ اگست سے اب تک 306 بار سکیورٹی اہلکاروں کو پتھراؤ کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔
سکیورٹی اداروں کی داخلی رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دو ماہ میں 100 سکیورٹی اہلکار پتھراؤ سے زخمی ہوئے۔
کشمیر میں ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب تک 4000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جن میں سیاست دان، علیحدگی پسند رہنما اور احتجاج کرنے والے نوجوان شامل ہیں۔
بھارت کے اخبار 'دی ہندو' نے رپورٹ میں بتایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کے خطاب کے بعد 24 گھنٹوں میں 23 احتجاج ہوئے جن میں سکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ کیا گیا۔
نشریاتی ادارے 'نیوز 18' نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ پتھراؤ سے زخمی ہونے والے اہلکاروں میں 89 کا تعلق سینٹرل پیرا ملٹری فورس ہے۔
خیال رہے کہ بھارتی جنتا پارٹی (بی جی پی) کی مرکزی حکومت نے پانچ اگست کو آئین میں ترمیم سے قبل کشمیر میں اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات کیے تھے جبکہ کشمیر میں جاری امر ناتھ یاترا ختم کرنے اور وادی میں موجود سیاحوں کو فوری طور پر کشمیر چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق کشمیر میں رواں برس جنوری سے جون کے درمیان سکیورٹی فورسز کو صرف 40 بار پتھراؤ کے واقعات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دوسری جانب بھارت کے خبر رساں ادارے 'انڈیا ٹو ڈے' نے رپورٹ کیا ہے کہ کشمیر میں دو ماہ سے سیاحوں کی آمد پر پابندی بھی ختم کر دی گئی ہے۔
سیاحوں کی آمد پر پابندی کا خاتمہ گورنر ستیا پال ملک کی تجویز پر کیا گیا ہے۔
کشمیر کی انتظامیہ نے دو اگست کو جو اعلامیہ جاری کیا تھا اس میں قرار دیا گیا تھا کہ کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات ہونے کا اندیشہ ہے اس لیے امر ناتھ یاترا میں شریک افراد اور سیاح کشمیر سے فوری طور پر نکل جائیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے گورنر ستیا پال ملک کی سربراہی میں سکیورٹی سے متعلق میٹنگ ہوئی جس کے بعد انہوں نے سیاحوں کے لیے جاری سکیورٹی ایڈوزئری واپس لینے کی ہدایات جاری کیں۔
پانچ اگست کو لوک سبھا میں ایک بل کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر دیا گیا تھا، جس سے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت بھی ختم ہو گئی۔
اس کے بعد بھارت کی حکومت نے نقص امن کے خدشے کے پیش نظر جموں و کشمیر میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب کہ انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے بھی منقطع کر دیے تھے۔
مودی حکومت کی جانب سے پانچ اگست کو بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی اور لداخ کو ریاست سے الگ کرنے کے فیصلے کے بعد کشمیر میں بڑے پیمانے پر بے چینی پائی جاتی ہے۔