بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کی وفات کو کئی روز گزر جانے کے باوجود اُن کی قبر پر پولیس کا پہرہ ہے اور قبرستان آنے والوں کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے بدھ کو اکیانوے برس کی عمر میں وفات پانے والے سید علی گیلانی کو سرینگر کے حیدرہ پورہ کے علاقے میں واقع قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔
ان کے اہلِ خانہ نے الزام عائد کیا تھا کہ پولیس نے اہلِ خانہ کی موجودگی کے بغیر ہی اُن کی میت کی زبردستی تدفین کر دی تھی۔
پولیس کا یہ مؤقف تھا کہ پولیس نے میت کو گھر سے قبرستان تک لے جانے کو آسان بنایا کیونکہ یہ خدشہ تھا کہ شر پسند عناصر صورتِ حال کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
سید گیلانی کے حامی خفا، تاہم وادیٔ کشمیر میں صورتِ حال معمول پر آ گئی
سید گیلانی کے حامی خفا ہیں کہ انہیں اُن کا آخری دیدار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا اور نہ ہی جنازے میں شرکت کرنے کی اجازت دی گئی اور اب انہیں اُن کی قبر پر جانے سے بھی روکا جا رہا ہے۔
سید گیلانی کے انتقال کی خبر ملتے ہی حکام نے پوری وادیٔ کشمیر میں کرفیو جیسی پابندیاں لگا دی تھیں اور موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کو معطل کر دیا تھا۔
وادیٔ کشمیر میں لگائی گئی ان حفاظتی پابندیوں کو اب مکمل طور پر واپس لے لیا گیا ہے اور علاقے میں معمول کی زندگی بحال ہو گئی ہے جب کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی دوبارہ کام کرنے لگی ہیں۔ تاہم سید گیلانی کے انتقال کے بعد حراست میں لیے گئے درجنوں افراد میں سے کئی ایک جنہیں پولیس حکام نے شر پسند عناصر قرار دیا تھا اب بھی پولیس تھانوں میں بند ہیں۔
سید گیلانی کی تجہیز و تکفین کے سلسلے میں حکومت بالخصوص پولیس کے رویے پر بعض سیاسی حلقوں اور ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے تنقید کی ہے جب کہ سوشل میڈیا پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
گیلانی کے اہلِ خانہ پر پولیس کے الزامات
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے الزام لگایا ہے کہ بدھ یکم ستمبر کی رات سید گیلانی کی میت پر پاکستان کا قومی پرچم لپیٹا گیا تھا اور سرینگر کے حیدر پورہ علاقے میں اُن کی رہائش گاہ پر موجود افراد نے جن میں اُن کے اہلِ خانہ بھی شامل تھے پاکستان کے حق اور بھارت مخالف نعرے لگائے تھے۔
پولیس کا مؤقف ہے کہ سید گیلانی کی آخری رسومات عزت و احترام اور اسلامی عقائد کے مطابق ادا کی گئیں اور اس موقع پر مقامی مسجد کے امام، انتظامی کمیٹی کے اراکین اور سید گیلانی کے کئی رشتے دار بھی موجود تھے۔
پولیس نے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی ڈال دی ہیں جن میں سید گیلانی کی میت کو غسل دیتے اور انہیں سپردِ خاک کرتے ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
پولیس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ بدھ کی رات سید گیلانی کے انتقال کے کوئی آدھ گھنٹہ بعد انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار دو اور اعلیٰ پولیس عہدیداروں کے ہمراہ اُن کے گھر پہنچے تھے اور اُن کے دو بیٹوں ڈاکٹر نعیم گیلانی اور ڈاکٹر نسیم گیلانی سے مل کر اُن سے تعزیت کی تھی۔
اُن کے بقول اس موقع پر یہ درخواست کی گئی تھی کہ عام لوگوں کے وسیع تر مفاد میں سید گیلانی کی تجہیز و تکفین رات کے دوران ہی انجام دی جائیں کیونکہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو اس سے نقصِ امن کا خدشہ ہے۔
ترجمان نے کہا کہ "دونوں نے حامی بھر لی تھی اور کہا تھا کہ صرف دو گھنٹے کا انتظار کیا جائے گا تاکہ اُن کےسارے رشتے دار وہاں پہنچ جائیں۔ جس کے بعد انسپکٹر جنرل آف پولیس نے خود اُن کے چند رشتے داروں سے (فون پر) بات کی اور اُنہیں محفوظ راستہ دلانے کو یقینی بنایا۔"
پولیس کے مطابق تین گھنٹے گزرنے کے بعد لواحقین نے اپنا رویہ تبدیل کر دیا۔
تصویریں جھوٹ نہیں بولتیں سید گیلانی کے اہلِ خانہ کا پولیس کو جواب
وائس آف امریکہ نے سید گیلانی کے اہلِ خانہ سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے پولیس کے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس موقعے پر لی گئی ویڈیوز جو وائرل ہو چکی ہیں اُن کے بقول پولیس حکام کے ان دعوؤں کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ سید گیلانی کے کنبے کے ایک رکن نے بتایا کہ "بدھ کی رات کیا ہوا، یہ دنیا جان چکی ہے۔ تصویریں جھوٹ نہیں بولتیں۔ اس کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں کہنا۔"
اس سے پہلے ڈاکٹر نعیم گیلانی نے کہا تھا کہ اُن کے والد نے یہ وصیت کی تھی کہ انہیں سرینگر کے مزارِ شہدا میں دفن کیا جائے لیکن حکام نے اس کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا۔
اُنہوں نے بتایا تھا کہ جب لواحقین نے تدفین کے لیے کم سے کم جمعرات کی صبح تک کی مہلت مانگی تاکہ اُن کے وہ عزیز واقارب بھی اُن کے والد کا آخری دیدار کر سکیں اور اُن کے جنازے میں شامل ہو سکیں جو ابھی تک وہاں نہیں پہنچے تھے۔ لیکن اُن کے بقول ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار نے یہ کہہ دیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ سید گیلانی کو ایک گھنٹے کے اندر اندر مقامی قبرستان میں دفن کیا جائے اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو وہ خود ان کی تجہیز و تکفین کریں گے۔
نعیم گیلانی نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا تھا کہ "اس کے بعد پولیس نے صبح کے تین بجے کے قریب سید گیلانی کی میت کو اپنی تحویل میں لے لیا اور گھر کی خواتین نے جب مزاحمت کی تو انہیں دھکے دیے گئے۔
نعیم گیلانی نے کہا تھا کہ "اُس کے بعد کیا ہوا اور والد صاحب کو کس نے غسل دیا، اُن کے جنازے میں کون شامل ہوا اور ان کی کس نے تدفین کی اس کا ہمیں بالکل علم نہیں۔"
اس سے پہلے پاکستان میں سید گیلانی کے نمائندے عبداللہ گیلانی نے ایک ٹوئٹ کرکے یہ اعلان کیا تھا کہ انہیں سرینگر کے مزار شہدا میں دفن کیا جائے گا۔
ہفتے کو بھارتی پولیس نے سید علی گیلانی کی وفات کے بعد اُن کے اہلِ خانہ کی جانب سے بھارت مخالف نعرے لگانے اور اُن کی میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹنے کے الزام میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
اس متنازع قانون میں 2019 میں ترمیم کرتے ہوئے کسی بھی شخص کو بغیر شواہد سامنے لائے چھ ماہ سے سات برس تک قید میں رکھا جا سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اس قانون کو انسانی حقوق سے متصادم قرار دیتی رہی ہیں۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے اس صورتِ حال پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں میں کہا تھا کہ "کشمیر کو ایک کھلی جیل میں بدلنے کے بعد اب فوت شدگان کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔ ایک کنبے کو اپنی خواہشات کے مطابق اپنے پیاروں کا سوگ منانے اور اُنہیں الوداع کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔"
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی سید علی گیلانی کے اہلِ خانہ کے خلاف مقدمے کے اندراج کی مذمت کی تھی۔