احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے محمد مبشر کے اہلِ خانہ کے مطابق ان کا پورا خاندان خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
محمد مشرف اور اُن کے بیٹے سمیت احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے چھ افراد پر مبینہ طور پر توہینِ مذہب کا الزام ہے اور وہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔
محمد مبشر اپنے بیٹے اور اپنے دیگر رشتے داروں کے ہمراہ لاہور کے علاقے بادامی باغ میں جوتوں کے تلوے بنانے کا کام کرتے تھے، تاہم چند روز قبل پیش آنے والے واقعات نے ان کے خاندان کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔
خیال رہے کہ احمدی کمیونٹی کے افراد خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، تاہم پاکستان کا آئین انہیں غیر مسلم قرار دیتا ہے۔
محمد مبشر کا جوتوں کے تلوے بنانے کا چھوٹا سا کارخانہ گزشتہ کئی دِنوں سے بند ہے جس کی وجہ اہلِ علاقہ کا اُن پر توہینِ مذہب کا الزام ہے جس کی بنیاد پر پولیس نے مقدمہ درج کر لیا تھا۔
محمد مبشر اور اُن کے اہلِ خانہ اس وقت ایک کرب اور ذہنی اذیت سے گزر رہے ہیں۔ وہ اس قدر ڈر اور خوف میں مبتلا ہیں کہ اپنی بات کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے متعدد بار اُن سے رابطہ کیا مگر اُن کا کہنا تھا کہ وہ کمزور لوگ ہیں، اُنہیں اپنی جانیں عزیز ہیں۔
واضح رہے کہ تمام افراد کو لاہور کی مقامی عدالت نے 19 اگست کو دو ستمبر 2023 تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل حکام کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ 18 اگست کو مبینہ طور پر تھانہ بادامی باغ پولیس نے توہینِ مذہب کے الزام میں انہیں گرفتار کیا تھا۔
تھانہ بادامی باغ میں رواں ماہ دو اگست کو درج کیے گئے ایک مقدمے کے مطابق بادامی باغ میں جوتے بنانے کے کارخانہ کے مالک کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق یہ افراد مبینہ طور پر اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اور لوگوں کو احمدی بننے کے لیے رقم کا لالچ دیتے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق اہلِ علاقہ کے علم میں جب یہ بات آئی تو اُن کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے جس سے نقصِ امن کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
دو اگست کو پولیس کو درخواست دے دی گئی۔ درج کیے گئے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ احمدی کمیونٹی کے افراد مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں تھانہ بادامی باغ پولیس سے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ تمام ملزمان اِس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں اور مقدمے کی تفتیش چل رہی ہے۔ ابھی تفتیش سے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا جا سکتا۔
تھانہ بادامی باغ پولیس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس کی ہیلپ لائن 15 پر مشتعل ہجوم کی اطلاع ملی جس پر پولیس موقعے پر پہنچی، مشتعل افراد کو پیچھے ہٹایا اور صورتِ حال پر قابو پانے کی کوشش کی۔
جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں قید چھ افراد میں سے ایک احمدی شخص کے بھائی نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ محمد مبشر بادامی باغ لاہور میں تقریباً 12 سال سے جوتوں کا کارخانہ چلا رہے ہیں۔
اُن کے بقول کارخانے میں 15 سے 20 ملازمین کام کرتے تھے۔ محمد مبشر کو پہلے کبھی اس قسم کی صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
احمدی شخص کے مطابق مقدمے کے اندراج سے قبل ایک مشتعل ہجوم آیا اور اُن کے اُس چھوٹے سے کارخانے کو زبردستی بند کرا دیا۔
احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شخص کے مطابق محمد مبشر اس وقت بے گھر ہیں اور ایک خانہ بدوش کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ درحقیقت یہ صرف چھ احمدی ہی گرفتار نہیں ہوئے بلکہ چھ خاندانوں کا معاشی، معاشرتی اور سماجی استحصال ہو رہا ہے۔
اُن کے بقول اس وقت چھ متاثرہ خاندان شدید ذہنی پریشانی میں ہیں۔ اُن کے کم سن بچے بار بار پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے والد کو کس جرم میں جیل بھیج دیا گیا۔
احمدی شخص کا کہنا تھا کہ اُن کا اپنا ایک شادی شدہ بھائی اِس وقت مبینہ توہینِ مذہب کے الزام میں جیل میں ہے۔ اس کے بھائی کے بچوں کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے، والد کے بغیر ان کی گھریلو زندگی مفلوج ہو گئی ہے۔
خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا ہو۔
پاکستان کے آئین کے مطابق احمدی کمیونٹی کے اراکین اپنے مذہب کی ترویج نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنی عبادت گاہوں میں اسلامی شعائر استعمال کر سکتے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ احمدی کمیونٹی کے افراد کو پاکستان میں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ تاہم اُنہیں آئینِ پاکستان کے اندر رہ کر ہی اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرنے کی اجازت ہے۔
فورم