رسائی کے لنکس

پاکستان میں احمدی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے بڑھتے واقعات: کیا مسئلہ صرف مینار ہیں؟


پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کی عبادت گاہوں پر حملے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف اگست کے مہینے میں ہی اب تک احمدی کمیونٹی کی تین عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا جاچکا ہے۔

پاکستان کی اقلیتی احمدی کمیونٹی کے مطابق انتہا پسند افراد اور گروہ ان کی تاریخی اہمیت کی حامل عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور ایسے حملوں کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

حالیہ واقعہ ضلع وہاڑی میں آٹھ اگست کو پیش آیا جہاں احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا گیا۔ چھ اور سات اگست کی درمیانی شب ضلع بہاولنگر جب کہ پانچ اگست کو سانگھڑ میں بھی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

جماعت احمدیہ کے مطابق رواں سال اب تک پاکستان میں احمدیوں کی 14 عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ان میں سے کراچی اور میر پور خاص میں تین، تین، سانگھڑ، عمرکوٹ، سرگودھا، وزیرِآباد، گجرات، جہلم، بہاولنگر اور وہاڑی میں ایک ایک عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔

ان کے بقول کئی عبادت گاہیں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں جو قیامِ پاکستان سے قبل کی ہیں۔

واضح رہے کہ احمدی خود کو 'احمدی مسلمان' کہتے ہیں لیکن پاکستان کے آئین و قانون میں انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اور انہیں اپنی عبادت گاہ کو 'مسجد 'کہنے یا لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں احمدیوں کی 92 قبروں اور 10 عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا جب کہ 105 احمدیوں کے خلاف مذہب کی بنیاد پر مقدمات درج کرائے گئے۔

پاکستان میں احمدیوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے واقعات پر جماعتِ احمدیہ میں تشویش پائی جاتی ہے۔ مبصرین سمجھتے ہیں کہ ریاست کو آگے بڑھ کر اس کا کوئی پرامن حل نکالنا چاہیے۔

جماعتِ احمدیہ وزیرِ اعظم پاکستان کو ایک خط بھی لکھ چکی ہے جس میں انہوں نے اپنی عبادت گاہوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے اقدامات پر زور دیا تھا۔

'کئی عبادت گاہوں پر موجود مینار آئین پاکستان سے قبل کے ہیں'

پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کے مرکزی عہدے دار عامر محمود کہتے ہیں کہ ملک بھر کے تمام احمدی آئین و قانون کو مانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں بعض ترامیم بنیادی انسانی حقوق اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہیں۔ جنہیں بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں مذہبی، انسانی، شہری آزادی اور کاروبار کرنے کی آزادی کے بارے میں جو حقوق دیے گئے ہیں ان پر جماعتِ احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور پاکستانی کا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں کوئی قانون یا ذیلی شق ایسی نہیں جو پاکستان کے اندر احمدیوں کو ان کی عبادت گاہوں پر مینار بنانے سے روکتی ہو۔

ان کے بقول پاکستان کے آئین میں کوئی ایسی صراحت نہیں ہے کہ ملک میں رہنے والے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے شہری کی عبادت گاہ کا ڈیزائن کیا ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو مینار احمدیوں کی عبادت گاہوں پر موجود ہیں ان میں سے اکثر آئینِ پاکستان اور بعض پاکستان بننے سے بھی قبل کے ہیں۔

'آئین و قانون کی نظر میں سب برابر ہیں'

پاکستان علما کونسل کے چیئرمین اور وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے بین الامذاہب ہم آہنگی علامہ حافظ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ "کسی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچائے۔ اِسی طرح کسی بھی غیر مسلم کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی مسلمان کی عبادت گاہ کی بے حرمتی کرے۔ آئین اور قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔"

ان کے بقول قانون احمدیوں کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ مسلمانوں کی طرز پر عبادت گاہیں بنائیں۔ ان پر مینار بنائیں اور اسلامی شعائر اختیار کریں۔ احمدیوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ یہ اپنی عبادت گاہوں کی ہیئت مساجد کی طرح نہ بنائیں تو ان کی عبادت گاہوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ جماعتِ احمدیہ نے اپنی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے سے متعلق ایک منفی پروپیگنڈا اختیار کیا ہوا ہے جس میں وہ پاکستان اور اسلام کی بدنامی کرتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے پیچھے ان کے کچھ مقاصد ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا صرف پاکستان کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے آئین اور قانون کو مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے لوگوں کو ماننا چاہیے۔ پاکستان کا آئین احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے جس کی رو سے کسی بھی غیر مسلم کو یہ حق نہیں کہ وہ اسلامی شعائر اختیار کرے۔

علامہ طاہر اشرفی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ہندوؤں کے مندر، سکھوں کے گردوارے، مسیحیوں کے چرچ سمیت دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں ہیں۔ لیکن ان کی ظاہری شکل مساجد سے نہیں ملتی۔ پاکستان کا آئین اور قانون بھی انہیں برابر کے حقوق دیتا ہے۔

جماعتِ احمدیہ کے رہنما عامر محمود کے مطابق اس معاملے کا حل یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست انتہا پسند گروہوں کے خلاف ایک مضبوط قدم اٹھائے اور ایسے افراد جو احمدیوں کے خلاف نفرت کا پروپیگنڈا کرتے ہیں قانون کے مطابق انہیں روکا جائے۔

ان کے بقول اس بارے میں قانون واضح ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کے خلاف نفرت نہیں پھیلا سکتا۔ کسی کے خلاف تشدد کی ترغیب نہیں دے سکتا۔

وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ پاکستان میں احمدی برادری کے خلاف سرگرم ہیں ان کے خلاف سول سوسائٹی، ریاست اور تمام افراد کو آواز اٹھانی چاہیے۔ جو حقوق آئینِ پاکستان جماعتِ احمدیہ کو دیتا ہے وہ تمام احمدی برادری کو ملنے چاہئیں۔

حافظ طاہر اشرفی سمجھتے ہیں کہ قانون پر عمل درآمد ہی ایسے واقعات کو روک سکتا ہے۔ پاکستان کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے ایک قانون ہے۔ مسلم اور غیر مسلم افراد کے لیے قانون برابر ہے۔

عامر محمود کے بقول "حالیہ دو واقعات میں کچھ شرپسند عناصر جب کہ ایک میں پولیس ملوث ہے۔ ایسی کارروائیوں سے عالمی سطح پر پاکستان کا نام بدنام ہوتا ہے۔ ایسے افراد اور ایسی کارروائیاں ملک کی منفی تصویر پیش کرتی ہیں جن کو قانون کے مطابق روکا جانا چاہیے۔"

طاہر اشرفی کے مطابق حکومت اور ریاستِ پاکستان جماعت احمدیہ کے قائدین کو متعدد بار کہہ چکی ہے کہ مل بیٹھ کر اِس مسئلہ کو حل کیا جائے۔ لیکن اُن کی طرف سے کسی قسم کا کوئی مثبت جواب سامنے نہیں آیا۔

فورم

XS
SM
MD
LG